Thursday, 1 December 2011

حقیقت خرافات میں کھوگئی

حقیقت خرافات میں کھوگئی

صفات عالم محمدزبیرتیمی

حقیقت اور خرافات دوالگ الگ اورمتضاد چیزیں ہیں جن کا بیک وقت ایک ساتھ اکٹھا ہونا اجتماع ضدین ہے ۔البتہ حق وباطل کی معرکہ آرائی میں وقتی طورپر حقیقت خرافات میں کھوجاتی ہے ۔ ایسا ہردورمیں ہوتا آیا ہے اور آج بھی ہورہا ہے ، اسلام سب سے پہلا مذہب ہے اوراس کی سب سے پہلی دعوت توحید ہے اس کے باوجود شیاطین جن وانس نے ہردورمیں انسانوں کو شرک کا آلہ کاربنائے رکھااورحقیقت خرافات میں کھوتی رہی،اسی حقیقت کی دبیز تہہ سے پردہ اٹھانے کے لیے ہردورمیں انبیائے کرام مبعوث کئے گئے ۔لاکھوں انبیائے کرام کی دعوت کے باوجود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ساراعالم کفروبت پرستی سے جوجھ رہا تھا محض اس بنیاد پر کہ حقیقت خرافات میں کھوچکی تھی ، ہمارے آقا نے اپنی نبوت کی23سالہ زندگی میں حقیقت اورخرافات کا ایسا واضح تصور پیش کردیا کہ اس کی رات بھی دن کی مانند ہوگئی لیکن بُرا ہوجہالت اورہوائے نفس کا کہ مرورایام کے ساتھ یہ امت اپنے نبی کی تعلیمات سے دور ہوتی گئی ، امت کا ایک بڑاطبقہ گمراہی کا شکار ہوگیا پھر حقیقت کی جگہ پر خرافات کوفروغ ملنے لگا اورروایات کی  گرم بازاری ہوگئی۔آج برصغیرپاک وہندمیں ایسے بے شمار اعمال وتصورات پائے جاتے ہیں جوحقیقت میں ایجادبندہ ہیں لیکن دین کے نام پر مسلم معاشرے کا حصہ بن  چکے ہیں۔
ابھی ہمارے سروں پر محرم الحرام کا مہینہ سایہ فگن ہے ،جوحرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس میں بالخصوص اللہ پاک نے اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے ،  (سورة التوبۃ18) جس میں ہمارے حبیب کی سنت یہ ہے کہ بکثرت روزے کا اہتما م کیاجائے خاص طورپر عاشوراءکے دن اس تاریخی واقعہ کو تازہ کرتے ہوئے روزہ رکھا جائے جس دن اہل حق فتح وکامرانی سے سرخروہوئے اوراہل باطل کی شب تاریک کا خاتمہ ہوا، جس دن موسی علیہ السلام کوفرعون کے چنگل سے نجات ملی تھی اورفرعون اپنے  لاؤ لشکر سمیت دریائے نیل میں غرقاب ہوکرہمیشہ کے لیے عبرت کاسامان بنا تھا ،چنانچہ ہردورمیں اللہ والوں نے اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام کیا ۔۔۔یہی حقیقت ہے عاشورہ کی اوربس۔
لیکن اللہ کی مشیت ہوئی کہ سن
61ھ میں عاشورہ ہی کے دن ایک جگرخراش اوردل دوز حادثہ پیش آیا یعنی جگرگوشہ بتول اورنواسہ رسول سیدناحسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں شہید ہوکر زندہ وجاوید بن گئے ۔ یہیں سے تاریخ نے ایسا رخ بدلا کہ پچھلی ساری حقیقتیں ذہنوں سے اوجھل ہوگئیں اوراس امت کا ایک طبقہ روایات میں کھوکر رہ گیا ،چنانچہ اگرایک طرف قاتلان حسین نے اچھے ملبوسات زیب تن کرنے ،اچھے کھانے پکانے اورسرمہ لگانے کی بدعت ایجاد کی تودوسری طرف سیدناحسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرنے والوں نے اس دن کو رنج والم کا دن قرار دیا ۔بدقسمتی سے اہل سنت کے جاہل عوام میں یہ تصورات نفوذ کرگئے ،اب ان میں کا ایک طبقہ عاشورہ کے سلسلے میں نبوی طریقہ کو فراموش کرکے بدعی طریقہ کا قائل اورعامل ہے حالانکہ سنت کا طریقہ یہ تھا کہ اس دن روزہ رکھا جائے
حقیقت خرافات میں کھوگئی  یہ امت روایات میں کھوگئی
اہل بیت سے محبت ایمان کی علامت ہے ،اورشہادت حسین رضی اللہ عنہ کے دردناک اورکربناک واقعے کوسن کرامت مسلمہ کا ہرفرد بے چین اورمضطرب ہوجاتا ہے ، آنکھیں  اشک باراوردل بے قرار ہوجاتا ہے لیکن ایک مسلم پر لاکھ پریشانیاں آجائیں وہ شرعی حدود کو تجاوز نہیں کرسکتا ،شریعت نے مصیبت کے وقت صبر کرنے کا حکم دیا ہے اورسینہ کوبی اورماتم وشیون سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے (بخاری ومسلم)پھرشریعت نے میت پر سوگ منانے کی مدت تین دن ہی رکھی ہے ، سوائے اس عورت کے جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو،کیونکہ وہ چارمہینے اوردس دن سوگ منائے گی ۔(بخاری ومسلم)حالانکہ شہادت حسین کوایک زمانہ بیت گیا آخر اب تک نوحہ اورماتم کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے ؟ اورتاریخ میں محض شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا ہی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ ان سے پہلے بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے والدسیدنا علی رضی اللہ عنہ نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردئے گئے جوسب کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے ،ان سے پہلے تیسرے خلیفہ عثمان ذوالنورینرضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہرحال افضل تھے، ان سے پہلے خسر رسول حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا عظیم سانحہ اسی محرم کی یکم تاریخ  کوپیش آیا لیکن ان سب کے یوم شہادت کوماتم کا دن نہیں بنایاگیا ۔
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے نئے سال کا استقبال عزم اورحوصلہ کے ساتھ کرتی ہیں،اپنی غلطیوں پر رونے اورماتم کرنے کی بجائے ہمت اوراستقلال کے ساتھ آنے والے سال کے لیے پلاننگ کرتی ہیں۔یہی دانشمندانہ قدم ہے ورنہ ماضی کی غلطیوں پر آنسو بہانا اورسال کا آغاز ہی نوحہ وماتم سے کرنا شکست خوردہ قوموں کی پہچان ہے ۔ افسوس کہ اہل سنت کی ایک اچھی خاصی تعداد اس دن روزہ رکھنے کی بجائے تعزیہ داری اورنوحہ خوانی کرتی اوراس طرح کے جلوسوں میں تماشہ بیں کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔
آج ضرورت ہے کہ ہمارے خطباء اور واعظین عوام الناس کے سامنے اس مناسبت سے موسیٰ علیہ السلام اورفرعون کا واقعہ بیان کریں،ہجرت مصطفی اوراس سے حاصل ہونے والے اسباق پر گفتگوکریں،محرم الحرام کی فضیلت پر روشنی ڈالیں اورواقعہ کربلا میں جورنگ آمیزی کی گئی ہے اس کی حقیقت سے لوگوں کوآگاہ کریں تاکہ حقیقت بے غبار ہوکرسب کے سامنے آسکے۔

(ماہنامہ: مصباح، نومبر،2011ء)

No comments:

Post a Comment