زندگی کی ملازمت
ریحان
احمد یوسفی
ایک
صاحب کسی دفتر میں ملازم تھے۔ان کے معاملات وہاں اچھی طرح چل رہے تھے۔ مگر انہیں
آہستہ آہستہ کچھ شکایات پیدا ہونا شروع ہوئیں۔
ایک روز انہوں نے اپنے باس سے اپنی شکایات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ اپنی ہی شرائط پر کام کریں گے۔اگلے دن باس نے انہیں بلایا اور بتایا کہ جتنی شکایات انہیں دفتر سے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ اور سنگین نوعیت کی شکایات دفتر کو ان سے ہیں۔یہ سنگین شکایات بیان کرنے کے بعد باس نے انہیں ملازمت سے فارغ کردیا ۔یہ بات سن کر ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ انہوں نے بہت منت سماجت کی ،مگر انہیں جاب واپس نہیں ملی۔
ایک روز انہوں نے اپنے باس سے اپنی شکایات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ اپنی ہی شرائط پر کام کریں گے۔اگلے دن باس نے انہیں بلایا اور بتایا کہ جتنی شکایات انہیں دفتر سے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ اور سنگین نوعیت کی شکایات دفتر کو ان سے ہیں۔یہ سنگین شکایات بیان کرنے کے بعد باس نے انہیں ملازمت سے فارغ کردیا ۔یہ بات سن کر ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ انہوں نے بہت منت سماجت کی ،مگر انہیں جاب واپس نہیں ملی۔
یہ
سانحہ جو ان صاحب کو پیش آیا اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانہ پر پوری انسانیت کے ساتھ
پیش آنے والا ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں جی
رہا ہے۔ ان نعمتوں کے جواب میں اسے اپنے رب کی بندگی اور شکر گزاری اختیار کرنی
ضروری ہے۔ مگر انسان شکر گزاری کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے نافرمانی، ناشکری، غفلت، سرکشی اور شکوے شکایت کی نفسیات میں جیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر وہ اپنے ا س
رویے کی کوئی نہ کوئی تاویل بھی کرلیتا ہے۔
مگر
ایک روز زندگی کی ملازمت سے ہر انسا ن کو اچانک فارغ کریا جاتا ہے۔ موت اس سے ہر
نعمت چھین لیتی ہے۔ پھر قیامت کے دن یہ انسان رب کے سامنے پیش ہوگا۔ اس دن
پروردگار اس پر واضح کردیں گے کہ اس کا ہر رویہ غلط تھا ۔ اللہ تو احسان کی جگہ پر
کھڑے تھے ۔ حق تلفی اگر کی تھی تو بندے نے اللہ کے معاملے میں کی تھی۔ اس روز
انسان روئے گا۔ گڑگڑائے گا۔ معافی مانگے گا۔ ایک موقع اور مانگے گا۔ مگر اسے کوئی
موقع نہیں دیا جائے گا۔
ہر
زندہ انسان ابھی زندگی کی ملازمت پر باقی ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ شکر گزاری سیکھ
لے۔یہ موقع نکل گیا تو ابد تک اسے دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ چاہے وہ کتنا روئے۔
چاہے وہ کتنا ہی تڑپے۔
No comments:
Post a Comment