Wednesday 4 January 2012

شکوہ کے بجائے شکر


شکوہ کے بجائے شکر

ریحان احمد یوسفی

انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر گھڑ ی اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں جیتا ہے ۔ ہاتھ پاؤں جیسے اعضا، دیکھنے سننے جیسی قوتیں ، ذہن و زبان جیسی صلاحیتیں ، مال و اولاد جیسی نعمتیں ، میاں بیوی جیسے رشتے ، یہ سب وہ کرم نوازیاں ہیں جوساری زندگی انسان کو بلا استحقاق ملتی رہتی ہیں ، مگر انسانوں میں سے شاذ ہی ہوں گے جو ان نعمتوں پر دل و جان کی گہرائی سے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوں ۔

وینا ملک اور ہمارا میڈیا


وینا ملک اور ہمارا میڈیا

ریحان احمد یوسفی

 حال ہی میں بھارت کے ایک میگزین نے پاکستانی اداکارہ وینا ملک کی عریاں تصاویر شائع کی ہیں ۔جس کے بعد ہمارے ہاں میڈیا اور عوامی حلقوں میں بحث و مباحثے کا ایک طوفان اٹھ کھڑ ا ہوا ہے ۔کم و بیش تمام لوگ وینا ملک کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ۔ جبکہ موصوفہ مختلف ٹی انٹریوز میں اپنی پوزیشن کو یہ کہہ کر صاف کر رہی ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ۔انہوں نے عریاں نہیں بلکہ نیم عریاں تصویروں کا شوٹ کرایا تھا۔ظاہرہے کہ ان کے اس استدلال کو بھی قبول نہیں کیا جا رہا اور میڈیا ٹرائل سے لے کر عدالتی مقدمہ اور فتویٰ، ہر چیز کا انہیں سامنا ہے ۔

دماغی اندھا پن

دماغی اندھا پن

ریحان احمد یوسفی


اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو حواس خمسہ عطا فرمائے ہیں ، ان میں دیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ اوراہم فائدہ مند ہے ۔اس صلاحیت کی مدد سے انسان سب سے بڑ ھ کر خارجی دنیا سے استفادہ کرتا اور اس کے بارے میں جان پاتا ہے ۔انسان کی اس صلاحیت کا انحصار تین چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ خارج میں روشنی موجود ہوجو اشیا پر پڑ نے کے بعد انسان تک پہنچے ۔ دوسرے اس کی آنکھیں جو روشنی کی مدد سے اپنے پردہ بصری پر چیزوں کا ایک عکس بناتی ہیں ۔ جبکہ تیسری چیز انسا ن کا دماغ ہے جو اس منظر کو اپنے انتہائی پیچیدہ نظام سے گزار کر قابل فہم بناتا ہے ۔جس کے بعد انسان کا اعصابی نظام کسی ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

شاپنگ کلچر


شاپنگ کلچر

ریحان احمد یوسفی


 تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی زندگی کا مرکز مختلف چیزیں رہی ہیں ۔ ایک دور وہ تھا جب انسان خارج میں موجود مخلوقات کو معبود کے مقام پر رکھتا اور انہی کی رضا و خوشنودی کو اپنی زندگی کا نصب العین بناتا تھا۔یہ زیادہ ترزارعتی دوریا اگریکلچرل ایج کا زمانہ تھا۔ اس دور میں رائج کلچر کو ہم معبود کلچر کہہ سکتے ہیں ۔پھرصنعتی دور یا اینڈسٹریل ایج کا زمانہ آیا جب انسان ان سارے خداؤں سے فارغ ہو گیا۔اس دور میں مخلوقات عبادت کا نہیں بلکہ تحقیق کا موضوع بن گئیں ۔یہ وہ دور تھا جس میں کائنات انسانی فکر و فہم کا مرکز نگاہ بن گئی۔ایجادات اور تحقیقات نے دنیا بدل کر رکھ دی اور کل کائنات انسان کے لیے مسخر ہوگئی ۔ چنانچہ اس کلچر کو ہم تسخیر کائنات کلچر کہہ سکتے ہیں ۔

ٹوٹنے کے بعد


ٹوٹنے کے بعد
مولانا وحید الدین خان
Bottom of Form

مادہ کی آخری اکائی ایٹم ہے ۔جس طرح سماج کی آخری اکائی فردہوتا ہے ۔اگرہم ایٹم کوتوڑ نے میں کامیاب ہوجائیں توہم اس کوفنانہیں کرتے ۔بلکہ اس کوایک نئی اورزیادہ بڑ ی قوت میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔جس کانام جوہری توانائی(Atomic energy)ہے ۔مادہ منجمدتوانائی ہے اورتوانائی منتشرمادہ۔مادہ اپنی ابتدائی شکل میں جتنی قوت رکھتا ہے ، اس کے مقابلے میں اس وقت اس کی قوت بہت بڑ ھ جاتی ہے جب اس کے ایٹموں کوتوڑ کرجوہری توانائی میں تبدیل کر دیاجائے ۔

بن دیکھے کا سودا

بن دیکھے کا سودا

ریحان احمد یوسفی

 پچھلے دنوں ای میل پر ایک دلچسپ حکایت موصول ہوئی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ہارون الرشید بادشاہ اپنی بیگم زبیدہ خاتون کے ہمراہ دریا کنارے ٹہل رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک معروف بزرگ بہلول سے ہوگئی۔بہلول ریت پر گھر بنا رہے تھے ۔ انہوں بادشاہ سے کہا یہ گھر ایک دینار میں خریدلو ۔میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں ایک گھر عطا کر دے ۔ بادشاہ نے اسے دیوانے کی بڑ سمجھا اور آگے بڑ ھ گئے ۔ البتہ ملکہ نے انھیں ایک دینار دے کر کہا کہ میرے لیے دعا کیجیے گا۔