شاپنگ کلچر
ریحان
احمد یوسفی
تاریخ کے مختلف ادوار
میں انسانوں کی زندگی کا مرکز مختلف چیزیں رہی ہیں ۔ ایک دور وہ تھا جب انسان خارج
میں موجود مخلوقات کو معبود کے مقام پر رکھتا اور انہی کی رضا و خوشنودی کو اپنی
زندگی کا نصب العین بناتا تھا۔یہ زیادہ ترزارعتی دوریا اگریکلچرل ایج کا زمانہ تھا۔
اس دور میں رائج کلچر کو ہم معبود کلچر کہہ سکتے ہیں ۔پھرصنعتی دور یا اینڈسٹریل
ایج کا زمانہ آیا جب انسان ان سارے خداؤں سے فارغ ہو گیا۔اس دور میں مخلوقات عبادت
کا نہیں بلکہ تحقیق کا موضوع بن گئیں ۔یہ وہ دور تھا جس میں کائنات انسانی فکر و
فہم کا مرکز نگاہ بن گئی۔ایجادات اور تحقیقات نے دنیا بدل کر رکھ دی اور کل کائنات
انسان کے لیے مسخر ہوگئی ۔ چنانچہ اس کلچر کو ہم تسخیر کائنات کلچر کہہ سکتے ہیں ۔
اکیسویں صدی میں ایک
نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔یہ انفارمیشن ایج ہے ۔ اس دور میں ایجاد و اختراع کا
دروازہ بند تو نہیں ہوا، لیکن ا س کا رخ انسانی خواہشات کی تسکین کی طرف ہو چکا ہے
۔اس کا سبب یہ ہے کہ آج ہر انسان کی زندگی کا مقصد لذت کا حصول اور اپنے اردگرد
مادی دنیا کی رونقوں کو جمع کر لینا ہے ۔چنانچہ سائنسدان، انجینیئر، صنعتکار اور
تاجر ایسی اشیا بنانے اور ان کی تیاری میں لگے رہتے ہیں جو انسانی زندگی کو آسائش
اور سہولت سے بھردیں ۔ بازار، دکانیں ، شاپنگ سنٹر ان مادی اشیا سے بھرے ہوئے ہیں
جو انسانوں کے لیے باعث کشش ہوتی ہیں ۔ اخبارات، ریڈیو، ٹیلیوژن اور سینیما میں
اشتہارات کا انبار لگا ہوا ہے تاکہ لوگ خریداری کی طرف مائل ہوجائیں ۔
اس
پس منظر میں ہم آج کے زمانے کو خریداری یا شاپنگ کلچر سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔جس میں
آج ہر انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائے اور زیادہ سے
زیادہ چیزیں خریدے اور انہیں استعمال کرے ۔یہ گویا انسانی فکر کا آخری ارتقا ہے جب
اس نے یہ حقیقت جان لی ہے کہ نہ صرف اس کے اندر لذت اندوزی کی بے پناہ صلاحیت ہے
بلکہ اس کائنات میں بھی اس کی لذت کو تسکین بخشنے کی غیر معمولی استطاعت ہے۔ گرچہ
انسان کی اس لذت اندوزی کو بے مزہ کرنے کے لیے غربت، بیماری، مصائب، محرومی،
معذوری ، بوریت، محدودیت اور سب سے بڑ ھ کر موت اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ یہ سب
چیزیں انسان کی بنائی ہوئی ہر مادی جنت کو کسی بھی وقت اجاڑ سکتی ہیں ۔
یہ
صرف پروردگار عالم کی جنت ہے جہاں انسان ان تمام مسائل سے محفوظ رہ کر ختم نہ ہونے
والی زندگی میں ہمیشہ خوشی و کامرانی کی زندگی جیے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے یہ جنت بھی
دراصل ایک خریداری کلچر کے نتیجے میں انسان کو ملتی ہے ۔یہ خریداری کلچر وہ ہے جس
کا ذکر قرآ ن مجید میں (التوبہ 111:9)میں ہے ۔ اس کلچر میں انسان وقت، اپنی
صلاحیت، اپنے مال اور سب سے بڑ ھ کر اپنی جان کا بہترین مصرف یہ سمجھتا ہے کہ ان
سے جنت خریدی جائے ۔اس مقصد کے لیے وہ نیکیوں کے سکے جمع کرتا ہے ، بھلائیوں کی
کرنسی سمیٹتا ہے ، عبادت واطاعت کی انویسٹمنٹ میں اپنے جان اور مال کو کھپاتا ہے ،
انسانی خدمت کے میدان میں تگ و دو کرتا ہے ، نصرت دین کی مد اور رشتہ داروں کی مدد
کے لیے خرچ کرتا ہے ، کمزوروں اور ضعیفوں کی رعایت کرتا ہے ۔
یہ کلچر بظاہر آج ایک غیر مقبول کلچر ہے
۔مگر وہ کلچر ہے جو انسانیت کا ابدی کلچر ہے ۔ یہ کلچر قیامت کے فوراً بعد شروع ہو
گا اور کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اس ابدی کلچر میں جنت کے خریداروں کے لیے ختم نہ ہونے
والی خوشیاں ہوں ۔بے حساب نعمت ہو گی ۔بے خوف زندگی ہو گی۔ بے انتہا لذت ہو گی۔ بے
حد تسکین ہو گی۔ بے پناہ سرور ہو گا۔ بے اندازہ مسرت ہو گی۔
کاش
شاپنگ کلچر کا انسان اس آنے والیے کلچر کو جان لے ۔
No comments:
Post a Comment