Wednesday 4 January 2012

دماغی اندھا پن

دماغی اندھا پن

ریحان احمد یوسفی


اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو حواس خمسہ عطا فرمائے ہیں ، ان میں دیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ اوراہم فائدہ مند ہے ۔اس صلاحیت کی مدد سے انسان سب سے بڑ ھ کر خارجی دنیا سے استفادہ کرتا اور اس کے بارے میں جان پاتا ہے ۔انسان کی اس صلاحیت کا انحصار تین چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ خارج میں روشنی موجود ہوجو اشیا پر پڑ نے کے بعد انسان تک پہنچے ۔ دوسرے اس کی آنکھیں جو روشنی کی مدد سے اپنے پردہ بصری پر چیزوں کا ایک عکس بناتی ہیں ۔ جبکہ تیسری چیز انسا ن کا دماغ ہے جو اس منظر کو اپنے انتہائی پیچیدہ نظام سے گزار کر قابل فہم بناتا ہے ۔جس کے بعد انسان کا اعصابی نظام کسی ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

 ان تین میں سے کوئی ایک چیز موجود نہ ہو یا اپنا کام ٹھیک طرح نہ کرے تو انسان چیزوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ یعنی بالکل اندھیر ا ہو کہ کچھ نظر نہ آئے یا اتنی تاریکی ہو کہ چیزیں واضح نہ ہوں تو انسان خارجی حقائق کو سمجھ نہیں سکتا۔ اسی طرح انسان اندھا ہوجائے یا بصارت بہت کمزور ہوجائے تو انسان پھر بھی نہیں دیکھا سکتا۔ٹھیک ایسے ہی اگر دماغ اپنا کام کرنا چھوڑ دے تب بھی انسان خارج کی روشنی اور آنکھوں کی بینائی ہونے کے باوجود حقائق کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے ۔
 بینائی نہ ہونے اور تاریکی کی وجہ سے نہ دیکھ پانے سے تو سب لوگ واقف ہیں ۔ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کی آخری وجہ پر دور جدید میں سائنسدانوں نے بڑ ا دلچسپ کام کیا ہے ۔ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ضروری نہیں کہ انسان مرے اور اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے تبھی انسان دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گا بلکہ بارہا انسان کا دماغ کسی اور طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ جس کی بنا پر روشن منظر اور کھلی آنکھوں کے باوجود انسان حقائق نہیں دیکھ پاتا۔
 مثال کے طور پر مشاہدات و تجربات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جو لوگ موبائل فون پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں ، وہ بظاہر سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں ، مگر اکثر اوقات ان کی توجہ سننے اور بولنے کی طرف اتنی زیادہ مبذول ہوجاتی ہے کہ دماغ دیکھنا چھوڑ دیتا ہے ۔ انہیں بند سگنل نظر نہیں آتا۔ سامنے سے آنے والی گاڑ ی ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔ سڑ ک پر آنے والے راہگیر کی موجودگی ا ن پر واضح نہیں ہوتی۔عین دن کی روشنی اور پوری بینائی کے باوجود ڈرائیونگ کے دوران بہت سے حادثات کی وجہ یہی دماغی اندھا پن ہوتا ہے ۔
ہمارے دماغ کی یہی وہ کمزوری ہے جو انسانوں کے اندر جزوی اندھا پن پیدا کرتی ہے ۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ایک اندھا پن وہ ہوتا ہے جو جذبات و تعصبات کی بنا پر پیدا ہوتا ہے ۔ اس اندھے پن میں انسان سارے حقائق اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ ساری سچائیاں دن کی روشنی کی طرح برہنہ ہوکر سامنے آ جاتی ہیں ۔مگر انسانی دماغ ان کو نہیں مانتا۔چنانچہ وہ ان کی موجودگی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔جب ایک ملحد خدا کے سارے آثار دیکھنے کے بعد بھی اس کا منکر ہوجاتا ہے ۔ جب ایک مشرک توحید کا دعویٰ کرنے کے بعد بھی غیر اللہ کو اپنا مددگار سمجھتا ہے تو وہ اسی اندھے پن کا شکار ہوتا ہے ۔
اس دماغی اندھے پن کی کئی وجوہات ہوتی ہیں ۔ کبھی انسانوں کے پچپن کا ماحول اور ابتدائی تربیت ا س کی وجہ بن جاتی ہے ۔ کبھی انسان ایک نقطہ نظر کو قائم کر لیتا ہے اور پھر ہر دوسری حقیقت کے لیے دل کے دروازے بندکر لیتا ہے ۔ کبھی کسی شخصیت اور فرقے سے اندھی وابستگی اس کا سبب بن جاتی ہے ۔ وجہ جو بھی ہو اس دماغی اندھے پن کا انجام وہ بھیانک ایکسڈنٹ ہے جو حق کے ساتھ ٹکراؤ کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔اس کے بعد جہنم کے قید خانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ انسا ن کی منزل نہیں بن سکتا۔

No comments:

Post a Comment