Tuesday, 15 November 2011

وقت کی قدروقیمت


وقت کی قدروقیمت

محمد بشیر جمعہ

۱۔    عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھے۔ ایک شخص نے ان سے کہا ’’آؤ بیٹھ کر باتیں کریں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’تو پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔‘‘ یعنی زمانہ تو ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے کام سے غرض رکھنی چاہیے اور بے کارباتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
۲۔   شیخ محمد بن سلام البیکندی، امام بخاریؒ کے شیوخ میں سے تھے۔ ایک دفعہ ان کا قلم ٹوٹ گیا تو انہوں نے صدا لگائی کہ مجھ کو نیا قلم ایک دینار میں کون دیتاہے۔ لوگوں نے ان پر نئے قلموں کی بارش کردی۔ یہ ان کی دریا دلی کا حال تھا کہ وہ ایک قلم کو ایک دینار(اس دور کی خطیر رقم) کے بدلے خریدلیتے تاکہ لکھتے لکھتے ان کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو اور ان کے خیالات کا تسلسل جاری رہے۔
۳۔   تاریخِ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ، جاحظ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے کر ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
۴۔   فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے۔ وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب انہیں سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے۔
۵۔   اسماعیل بن اسحاق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔
۶۔   ابن رُشد اپنی شعوری زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔
۷۔   امام ابن جریر طبری ہر روز چودہ  ورقے لکھا کرتے تھے ۔انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استفادہ کے بغیر نہیں گزارا۔
۸۔   سارٹن نے تاریخ العلوم میں البیرونی کو دنیا کے بہت بڑے عالموں میں شمار کیا ہے۔ اس کے شوق علم کا یہ حال تھا کہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پیشتر، ایک فقہی سے جوان کی مزاج پرسی کے لیے آیا ہوا تھا علم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔
۹۔    امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک جوینی امام فقہ، مشہور متکلم امام غزالیؒ کے استاد تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں سونے اور کھانے کا عادی نہیں ہوں۔ مجھ کو دن اور رات میں جب بھی نیند آتی ہے، سوجاتا ہوں اور جس وقت بھوک لگتی ہے کھانا کھالیتا ہوں۔ ان کا اوڑھنا، بچھونا، پڑھنا اور پڑھانا تھا۔
۱۰۔  علامہ ابن جوزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے، وہ اپنی عمر کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ وہ قلم کے تراشے سنبھال کر رکھ چھوڑتے تھے چنانچہ ان کی وفات کے بعدان تراشوں سے پانی گرم کرکے ان کو غسل دیا گیا۔ ابن جوزی اپنے روزنامچہ ’’الخاطر‘‘ میں ان لوگوں پر کف افسوس ملتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کھیل، تماشے میں لگے رہتے ہیں۔ ادھر ادھر بلا مقصد گھومتے رہتے ہیں، بازاروں میں بیٹھ کر آنے جانے والوں کو گھورتے ہیں اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر رائے زنی کرتے رہتے ہیں۔
۱۱۔   امام فخرالدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر تیس جلدوں میں ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے، میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا رہتا ہوں۔
۱۲۔  علامہ شہاب الدین محمود آلوسی مفسر قرآن نے اپنی رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ پہلے حصے میں آرام واستراحت فرماتے تھے۔ دوسرے میں اللہ کو یاد کرتے تھے اور تیسرے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔

(شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر، محمد بشیرجمعہ، صفحہ نمبر۱۹-۲۰)

No comments:

Post a Comment