جہیز
خالد
رحمٰن
نبیﷺ کی چار
صاحبزادیاں تھیں۔ چاروں ہی بڑی ہوئیں اور اپنے اپنے وقت پر ان کی شادیاں ہوگئیں۔
حضرت فاطمہؓ کا نکاح
آپﷺ نے حضرتؓ علی سے کیا تونکاح کے موقع پر آپﷺ نے اپنی جانب سے حضرت فاطمہؓ کو ایک
چادر، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا ایک تکیہ دیا۔ بعض روایات کے مطابق اس کے علاوہ پینے
کا پیالہ بھی اس سامان میں شامل تھا۔
نبیﷺ کی جانب سے
حضرت فاطمہ ؓ کو نکاح کے وقت دیے جانے والے اس سامان کو آج بہت سے
لوگ ،معاشرے میں رائج جہیز کی رسم کا جواز بناتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ شادی کے وقت
جہیز کے طور پر لڑکی کو کافی سامان دیا جانا چاہیے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنا نیا گھر بناسکے۔ رسم کے مطابق سامان کا اس
طرح لین دین ہونا ہی ہو تو پھر معاشرے کے متمول اور صاحب حیثیت افراد اپنی شان
وشوکت کا تاثر ابھارنے کے لیے نہ صرف اپنی بچیوں کی شادی کے موقع پر انہیں بے
تحاشہ سامان دیتے ہیں بلکہ اس کی خوب خوب نمائش بھی کرتے ہیں۔
نام ونمود کی یہ
دوڑ جب شروع ہو اور عزت واحترام کا پیمانہ ہی یہ بن جائے تو کوئی بھی پیچھے نہیں
رہنا چاہتا۔ چنانچہ جن کی آمدنی محدود ہو اور وسائل کی کمی کا شکار ہوں وہ قرض لے
لے کر یہ انتظام کرتے ہیں۔ ان کی بچیوں کی شادی تو ہوجاتی ہے لیکن قرض کی بناء پر
تنگدستی کا سلسلہ آئندہ کئی سال تک چلتا رہتاہے۔ جس کے بہت سے منفی اثرات خاندان
اور معاشرے پر پڑتے ہیں۔دوسری جانب اگر
قرض پر رقم حاصل کرکے بھی انتظام ممکن نہ
ہوتو ، یا تو بیٹی کی شادی موخر ہوتی چلی جاتی ہے اور یا شادی کے بعد نئے گھر میں
اسے جہیز نہ لانے پر ہمہ وقت طنز اور لعن
طعن کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
لیکن کیا نبیﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کا
عمل فی الواقع ایسی رسوم کا جواز مہیا کرتاہے؟
بلاشبہ تقریب نکاح اور شادی، خوشی کا
موقع ہے۔ ہر ماں باپ کی فطری طور پر خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس خوشی کے موقع پر اپنی بیٹی کو تحفہ کے طور پر جو کچھ
بھی دے سکتے ہیں اس کا انتظام کریں۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ممکن ہوتو بیٹی کو
اپنا نیا گھربسانے میں کوئی سہولت حاصل ہوجائے۔ لیکن شادی میں جہیز دینے کا جو طریقہ آج ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ اس
کا اسلام اورا سلامی تعلیمات سے جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
خانگی زندگی کا مقصد سکون، راحت ومحبت
کا حصول اور اخلاق اور عصمت وعفت کا تحفظ ہے۔ اسی لیے ایک مثالی معاشرے کی تعمیر
کے لیے اسلام کی نظر میں عائلی زندگی کا قیام اور خاندان کے ادارہ کا موثر کردار
نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی بناء پر اسلامی معاشرے میں نکاح کو آسان بنانے کی
تاکید کی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جہیز کی رائج الوقت رسم نے نکاح کے عمل کو مشکل
تر بنادیا ہے۔
لڑکیوں کی شادی جہیز
کا انتظام نہ ہوسکنے کی بناء پر نہ ہوپائے تو ان لڑکیوں کے بھائی بھی شادی سے رک
جاتے ہیں۔ یوں ایک ایسا خراب چکر شروع ہوجاتاہے، جس کے سماجی طور پر نہایت تباہ کن اثرات رونما ہورہے
ہیں۔ سب سے بڑھ کر بدقسمتی یہ ہے کہ بعض لوگ جہیز کی اس رسم کو اسلامی تعلیمات کے
تقاضے کے طور پر قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہیز کی
رسم کی موجودہ شکل ہندی تہذیب وثقافت سے آئی ہے۔ ہندومذہب سے وابستہ افراد اپنے
قدیم قانون کے مطابق بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے۔ اس کی تلافی کا
عملی راستہ انہوں نے یہ نکالا کہ شادی کے موقع پر لڑکی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دے
دیا جائے۔
اسلام نے لڑکی کو
وراثت میں باقاعدہ حصہ دار بنایا، اس لیے یہاں ایسی کسی رسم کی ضرورت نہیں تھی۔
خود نبیﷺ سے بھی حضرت فاطمہ کے علادہ اپنی دیگر صاحبزادیوں کو شادی کے موقع پر
سامان دینے کی روایت سامنے نہیں آتی۔ حضرت فاطمہؓ کو جوسامان دیا گیا اس کا خصوصی پس منظر یہ
بتایا جاتاہے کہ حضرت علیؓ چھوٹی عمر سے
ہی آپﷺ کے زیر کفالت تھے۔ بچپن سے آپ کے تمام اخراجات کی فراہمی عملاً آپﷺ کی
ذمہ داری تھی۔ اس اعتبار سے نکاح کے بعد نیا گھر بسانے کے لیے آپﷺ نے بطور سرپرست
کچھ ضروری سامان د ینے کاایک راستہ نکال لیا۔
جہیز ماں باپ کی جانب
سے ایک تحفہ ہے اپنی استطاعت اور ذوق کےمطابق والدین بیٹی کو دیں تو کوئی مضائقہ
نہیں۔ اسے نکاح اور شادی کی تقریبات کے ساتھ لازم وملزوم بنالینا، اس کی نمودو
نمائش اور اس کی تکمیل نہ ہونے پرلڑکی یا
اس کے والدین کو کسی قسم کے طعن وتشنیع کا نشانہ غلط طرزِ عمل ہے جس کی کوئی
گنجائش دین اسلام میں نہیں ہے۔
(کامیاب
زندگی اپنا راستہ خود بنائیے، خالد رحمٰن، صفحہ نمبر۱۸۳-۱۸۱)
ميرا خيال ہے [جسے آپ مطالعہ دين کا نتيجہ بھی کہہ سکتے ہيں] کہ بيوی کے تمام اخراجات خاوند کے ذمہ ہيں جبکہ بيوی کی کمائی ميں خاوند کا کوئی حصہ نہيں ہے سوائے بيوی کی موت کے بعد کہ 50 فيصد خاوند کو ملے گا اگر بيوی بے اولاد مری ہو ۔ البتہ بيوی اپنی مرضی سے اپنی دولت خاوند کو دے سکتی ہے
ReplyDeleteآپ کی آراء کا میں مشکور ہوں۔ اللہ ہم سب میں دین کی اصل سمجھ عطا فرمائے اور جہیز کی اس لعنت سے ہمارے معاشرے کو چٹکارا دے۔
ReplyDelete