Sunday 20 November 2011


عمل کی حقیقت

خالد رحمٰن

سوار تیزی سے ان ہی کی جانب آرہا تھا۔ نبیﷺ نے اسے دیکھا تو صحابہؓ  سے فرمایا! لگتا ہے کہ یہ تمہارے ہی ارادے سے آرہا ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں سوار قریب آپہنچا۔ آتے ہی اس نے سلام کیا۔ نبیﷺ اور صحابہؓ  نے سلام کا جواب  دیا اور نبیﷺ نےدریافت کیا کہاں سے آئے ہو؟
اپنے گھر، اولاد اور قبیلے کے پاس سے آرہا ہوں! سوار نے جواب دیا۔
کہاں کا ارادہ ہے؟ آپﷺ نے دریافت کیا!
اللہ کے رسولﷺ کے پاس جانے کا ارادہ ہے۔ سوال کا جواب سن کر آپﷺ نے فرمایاتم  نے رسول کو پالیا ہے۔
سوار نے یہ بات سنی تو آپﷺ سے دریافت کیا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتائیے کہ وہ کیا چیزہے؟
آپﷺ نے فرمایا اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ شریف کا حج کرو۔
سوار نے ساری بات سنی تو کہا میں نے ان چیزوں کا اقرار کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے واپسی کا قصد کیا۔ لیکن اونٹ پر سوار  ہوکر ابھی روانہ ہی ہوا تھا کہ اونٹ کا پاؤں کسی گڑھے میں دھنسا اور اونٹ گرگیا—سوار بھی گرا اور اس کا سرزمین پر لگا—!
نبیﷺ نے اسے گرتے دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ اسے میرے پاس لاؤ!یہ سن پر حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت حذیفہؓ دوڑتے ہوئے گئے سوار کو زمین سے اٹھایا، سینے سے لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ تو فوت ہوچکا ہے۔
عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو فوت ہوگئے ہیں۔ رسولﷺ نے سنا اور اسی اثناء میں اپنا رخ اس سے پھیرلیا!
صحابہؓ کے لیے یہ کسی قدر حیرانی کی بات تھی! اس حیرانی کو دیکھ کر آپﷺ نے اپنا رخ پھرنے کی وجہ بتاتے ہوئے  کہا کہ میں نے دیکھا دو فرشتےاس کے منہ میں جنت کے پھل ڈال رہے ہیں، تب مجھے معلوم ہو اکہ وہ بھوک کی حالت میں فوت ہوگیا ہے پھر رسولﷺ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہےجن  کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے:
حقیقت میں تو امن ان ہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا(الانعام:۸۴)
پھر آپﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کو اٹھاؤ۔ ہم نے اسے اٹھایا پانی کے پاس لے گئے، غسل دیا، خوشبو لگائی کفن پہنایا، جنازہ پڑھا اور قبر تک اٹھاکر لے گئے۔
یہ حدیث جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے اور بعض روایات میں ایمان لاتے ہی فوت ہوجانے والے اس صحابی کے حوالہ سے یہ اضافہ بھی ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے عمل تھوڑا کیاا ور اجر زیادہ پایا۔
ایمان لانے کے بعد حقیقت یہ ہے کہ اس شخص نے کوئی نیک عمل  کیا ہی نہ تھا ، نہ نماز ادا کی نہ روزہ رکھا، نہ حج کیا اور نہ ہی زکوٰۃ دی۔ ابھی تو حالت ایمان میں نے چند ثانیے ہی گزارے تھے اعمال کا ذخیرہ جمع کرنے کا کوئی موقع ہی نہ ملا تھا۔ اس کے باوجود نبیﷺ کے بقول اس کی تواضع جنت کے پھل سے کی جارہی تھی۔
تو کیا عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور آخرت کا حصول اچھے اور نیک اعمال کے بغیر ممکن ہے؟
روزمرہ زندگی میں جزا و سزا کے پیمانوں کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات ناقابل فہم ہوجاتی ہے ۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل اہمیت سچے ایمان اور اقرار کی ہے یہ اس آدمی کے اقرار کی سچی کیفیت تھی، جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوگئی۔ اس کے بعد بلاشبہ اگر اسے زندگی ملتی تو قدم قدم پر اس کے ایمان کے سچے ہونے کا امتحان ہوتا— اور یہی ہر ایمان لا نے والے کے ساتھ ہوتاہے۔
نماز کا وقت آنے پر اس نے نماز ادا کی یا نہ کی، دیگر عبادات کی کیا کیفیت رہی، معاملات میں فیصلہ کرتے وقت حق اور سچائی پر قائم رہا یا نہ رہا، امانت ودیانت کے بارے میں جملہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کی یا نہ کی ۔ غرض ایمان لانے سے قبل کا امتحان تو یہی ہے کہ انسان کائنات میں اللہ تعالیٰ کے آثار اور نشانیوں کو پہچانتاہے یا نہیں۔ اور اس پہچان کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی حیثیت سے نبیﷺ اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے طور پر قرآن مجید پر ایمان لاتاہے یا نہیں۔ تاہم ایمان لانے کے بعد  انسان کا ہر عمل اس کے لیے امتحان ہوتاہے۔ یہ امتحان کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور نبیﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہر کام کو سرانجام دینے کی کوشش کرے۔ یوں غور کیا جائے تو ہر لمحہ امتحان ہے اور ہر لمحہ ہونے والے اس امتحان میں کامیابی اسی وقت ممکن جب اللہ اور اسکی تمام صفات پر ایمان کی کیفیت ہروقت تازہ رہے۔
اللہ ہی خالق ہے وہی رازق ہے وہ علیم وخبیر ہے وہ رحمٰن ورحیم ہے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، وہ شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ دلوں کا حال جانتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس سے اپنے تعلق کے بارے میں جس انسان کے ذہن میں یہ ایمانی تصورات  ہر دم تازہ ہوں اس کا سیدھی راہ سے بھٹکنا مشکل ترہوتا جاتاہے۔
اس اعتبار سے اعمال کی مقدار اور تعداد سے زیادہ اہمیت اس ایمانی کیفیت کی ہے جو انسان کو نیک عمل کے لیے قوت اور تحریک فراہم کرتی ہے اور اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ساری زندگی ایمانی کیفیت اور نیک اعمال میں گزارنے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کا خاتمہ سچی ایمانی کیفیت پر ہو یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ:
اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام ومن توفیۃ منا فتوفہ علی الایمان۔

 (کامیاب زندگی اپنا راستہ خود بنائیے، خالد رحمٰن، صفحہ نمبر۴۴-۴۲)

No comments:

Post a Comment