Sunday 30 October 2011

سرائے


سرائے
خالد رحمٰن


حاکم وقت کا دربار لگا ہوا تھا!
ایک شخص بڑے رعب کے ساتھ اندر داخل ہوا اور تخت شاہی تک آپہنچا۔
آنے والے شخص کو پر اعتماد دیکھ کر دربار میں موجود امراء وزرا میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ اسے روکے یا اس سے کچھ دریافت کرے۔
’’توکون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘ حاکم وقت نے خود ہی  کسی قدر تعجب سے سوال کیا۔
’’میں اس سرائے میں ذرا ٹھہرنا چاہتا ہوں!‘‘محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئےاجنبی نے جواب دیا۔
’’یہ سرائے نہیں۔ شاہی محل اور دربار ہے۔ ‘‘بادشاہ نے جواب دیا۔
بادشاہ کا جواب سن کر اجنبی نے خاموش ہونے کی بجائے سوال کیا! ’’آپ سے پہلے اس محل میں کون رہتا تھا؟‘‘
’’میرا باپ !‘‘ بادشاہ کا مختصر جواب تھا۔
’’تمہارے باپ سے پہلے کون تھا؟‘‘اس شخص نے ایک اور سوال کیا۔
’’میرا  دادا!‘‘ بادشاہ نے جواب میں بتایا۔
دربارمیں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تمام لوگ بادشاہ اوراجنبی مہمان کامکالمہ سن رہے تھے۔
’’آپ  کے بعد یہاں کون رہے گا؟‘‘ آنے والے  شخص کا اگلا سوال تھا۔
’’میری اولاد!‘‘
بادشاہ کے اس جواب کو سن کر وہ شخص بولا ’’ذراخیال کرو! جس مقام پر اتنے آدمیوں کا آناجانا ہو اور کوئی بھی مستقل  قیام نہ کرتا ہو وہ مقام سرائے نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
یہ واقعہ تیسری صدی ہجری کے بزرگ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ سے منسوب ہے  جو بلخ کے  شہزادے تھے۔ روایت کے مطابق اس واقعہ کے بعد آپ نے امارت وتخت کوٹھکراکر درویشی اور تصوف کو اپنالیااور اس میں وہ بلند مقام حاصل کیا جسے اکثر صوفیاء رشک کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔
توکیا، وسائل زندگی کو ٹھکرادیناہی درست رویہ ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ چنانچہ اس کائنات میں جتنی بھی نعمتیں تخلیق کی گئی ہیں انسان کو ان سے استفادہ کرنے کی صلاحیت اور مواقع بھی عطا کیے گئے ہیں۔
قرآن مجید کے الفاظ ہیں:
’’وہی تو ہے جس نے تمہارےلیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اوروہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘(بقرہ:۲۹)
یوں جائز طریقےاور ذرائع اختیار کرتے ہوئے حاصل شدہ نعمتوں کو استعمال کرنا اور ان سے آرام و سکون حاصل کرنا انسان کا فطری اورجائز حق ہے۔ دین اسلام انسان کی فطری ضروریات کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور حدود وشرائط کے ساتھ ان ضروریات کو پورا کرنے کی ترغیب دیتاہے۔ تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر انسان کو ایک معینہ وقت پر دنیا سے رخصت ہوجاناہے جس کے بعد کبھی ختم نہ ہونے والی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوتاہے ۔ دنیا کی نعمتیں یہیں  دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جو بعد میں آنے والے لوگوں کے کام تو آسکتی ہیں خود انسان کےکسی کام نہیں آتیں۔ یہ حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوجائے تو انسان دنیا کی آسائشوں اور سہولتوں ہی میں اس طرح کھوجاتاہے کہ یہی اس کی زندگی کا مقصد ومحور بن جاتی ہیں اور یہ سلسلہ اس طرح دراز ہوجاتا ہے کہ پھر آسائشوں اور نعمتوں کے حصول اور استعمال میں جائز وناجائز کی تفریق بھی ختم ہوجاتی ہے۔
صحیح ایمانی رویہ ہے کہ انسان دنیا کو عارضی قیام کی جگہ اور اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو امانت سمجھتے  ہوئے اسی قدر اور ان ہی حدود میں استعمال کرے  جو خود عطا ءکرنے  والے نے مقرر کردی ہے۔

(کامیاب زندگی اپنا راستہ خود بنائیے،خالد رحمٰن،صفحہ نمبر:3-4)

5 comments:

  1. یہ واقعہ بہت ہی سبق آموز تو ہوسکتا ہےمگر سچ بات یہ ہے کہ جب آپ اسلام کی بات کرتے ہین تو صرف قرآن وہ سنت سے آگے جانا ممکن نہیں، جب روشن کتاب میں آیتیں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں تو انہیں کو سمجھنے کی کوشش ہونی چاہئے،

    ReplyDelete
  2. اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ نے کہا کہ"قرآن اور سنت کے آگے جانا ممکن نہیں۔" لیکن یہ روزمرہ کے واقعات ہی ہوتے ہیں جس سے ایمان میں تازگی، قلب میں سکون اور علم دین میں اضافہ ہوتا ہے۔ افتخار صاحب اگر میں عرض کروں تو میں نے یہ بلاگ اسی مقصد کے لیے بنایا ہے کہ وہ اسباق، واقعات اور تحریر اس بلاگ پر رکھوں جو ہم سب کے لیے صراط مستقیم پر چلنے کا باعث بنیں۔
    طالب دعا
    ثاقب شاہ

    ReplyDelete
  3. اگر اجنبی کی بات بادشاہ کو بدل سکتی ہ۔ تو ایک عام ٓدمی کیلءے ممکن ھے کھ وھ اس واقع کو سن کر قران کی طرف راغب ھو سکے

    نوشاد بن اکبر

    ReplyDelete
  4. Allah ap sab ko is ka acha silah day.bhai sahab nay theek kaha hai kay roz mara kay is tara kay wakyat ko parhna chahy aor in wakyaat ko Quran aor Sunaat ki roshni mai bi check krna chahy yah hi sab say best tareeka hai.Allah hafiz

    rizwan_aslam07@yahoo.com

    ReplyDelete
  5. میں نوشاد اکبر اور رضوان اسلم صاحبان کا نہایت مشکور ہوں کہ انہوں نے بلاگ کا وزٹ کیا اور اپنی قیمتی آرا سے نوازا۔
    ثاقب شاہ

    ReplyDelete