Thursday 2 February 2012

کیا ہم معیاری نصابی کتابیں نہیں لکھ سکتے؟

کیا ہم معیاری نصابی کتابیں نہیں لکھ سکتے؟

اشتیاق احمد

مجھے یہ جان کر انتہائی دکھ ہوا کہ وطن عزیز کے کچھ دانشور(بزعم خویش) غیر ملکی مصنفیں کی تحریر کردہ نصابی کتب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بطور نصاب رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی تسلیم شدہ معیاری کتب(Recognized standard book)ہیں۔
مثال کے طور پر اولیول اور اے لیول کی کتابیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیاری نصابی کتاب کی تعریف کیا ہے؟ کیا معیاری کتاب اسی کو کہا جائے گا جو انگریزی میں لکھی ہوئی ہو؟ جو انگریزوں کے ممالک میں بطور نصاب رائج ہو، یا پھر انگریزوں کے غلام ممالک میں وڈیروں ، جاگیرداروں، بیورو کریٹس، حکمرانوں اور ان کے مصاحبین کے لیے بنائے گئے تعلیمی اداروں میں رائج ہو؟ معیاری نصابی کتاب کی یہ تعریف کہاں سے اخذ کی گئی ہے؟ کیا معیاری کتاب کی یہ بین الاقوامی تعریف ہے؟ انگریزوں کی تہذیب، ثقافت، زبان اور زمینی وجغرافیائی حالات ہم سے قطعاً مختلف ہیں۔ وہ جو کچھ نصابی کتابوں میں لکھیں گے وہ اپنے ماحول تہذیب و ثقافت اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر لکھیں گے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا انہیں کے درمیان مقابلہ تو ہوسکتا ہے کیونکہ مذکورہ اقدار میں وہ قدر مشترک رکھتے ہیں۔ مگر کسی دوسرے ممالک کے ساتھ نہیں جس کی زبان ثقافت ان سے قطعی مختلف ہو۔ پاکستان کے لوگ ان سے اردو میں اچھی کتابیں لکھیں گے کیونکہ ہماری قومی زبان اردو ہے اور وہ ہم سے انگریزی میں اچھی کتابیں لکھیں گے کیونکہ ان کی قومی زبان انگریزی ہے۔ ہماری کتابیں ہمارے مذہب، کلچر اور زبان و بیان کے اعتبار سے ہمارے لیے معیاری ہیں اور ان کی کتابیں ان کے زبان و بیان اور کلچر کے مطابق ان کے لیے معیاری ہوں گی۔ ہمارے لیے معیاری کتاب وہ ہوگی جو ہماری قومی زبان میں لکھی ہوئی ہو۔ ہمارے طلباءوطالبات کی ذہنی سطح اور تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ ہو۔ کیا ہماری اردو زبان کے اندر لکھی ہوئی کسی بہترین اور معیاری کتاب کو انگریز ممالک اپنے تعلیمی اداروں میں رائج کریں گے؟ کیا جاپانی زبان میں لکھی ہوئی کسی معیاری سائنسی کتاب کو انگریز اپنے ممالک کے تعلیمی اداروں میں بطور نصاب پڑھائیں گے؟ کیا انگریزوں کی کسی معیاری نصابی کتاب کو چینی اپنے تعلیمی اداروں میں بطور نصاب نافذ العمل کریں گے۔ نہیں، ہر گز نہیں۔ تو پھر ہمارے تعلیمی اداروں میں ان کو معیاری نصابی کتابوں کے نام پر کیوں رائج کیا جارہا ہے؟ یہ معیار کا تقابل ہی سرے سے غلط اور غیر منطقی تناظر میں کیا جارہا ہے۔
اگر ہم ذرا تھوڑا سا گہرائی کے ساتھ سوچیں تو یہ بات اچھی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ معیاری کتابوں کے نام پر غیر ملکی مصنفیں کی کتب کو رائج کرنا اپنے رہے سہے تعلیمی اور تحقیقی ہاتھوں کو بھی کٹوانے کے مترادف ہے اور ہمارے دماغوں کو مقفل اور زنگ آلود کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ اس سازش کے پس پردہ  ڈور ہلانے والا تھنک ٹینک یہی تو چاہتا ہے کہ اس قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کچھ لکھنے کی عادت نہ پڑجائے۔ یہ ہمیشہ دوسروں کی دست نگر ہی رہے۔ تحریر و تحقیق اور جدت و تخلیق کے تمام تر سر چشمے انہی کے پاس رہیں اور ہم ان پر اندھے ، بہرے اور گونگے بن کر گرتے رہیں۔ انہی کی زبان میں سب کچھ پڑھایا جائے تا کہ ہماری قوم کچھ سمجھنے کے قابل نہ بن سکے۔ ان کا رشتہ انکی سوچ کی زبان سے کٹا رہے۔ یہ تعلیم و تدریس کے فطری اور قابلِ فہم طریقوں سے دور رہیں۔ نصابی خود کفالت سے یہ قوم ہمیشہ تہی دست رہے۔
اگر موجودہ حکمران اور پالیسی ساز افراد یہ فیصلہ کرتے کہ پاکستان کی پہلی جماعت سے ایم۔ اے، ایم۔ ایس سی تک کا نصاب ہمارے اپنے لوگ اپنی قومی زبان میں تیار کریں گے تو ہم ان کے فیصلے کی پرزور تائید و حمایت کرتے اور ان کے دست و بازو بنتے کیونکہ یہ راستہ خود انحصاری ، خود کفالت اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ہے۔ ہم انہیں ملک و قوم کا خیر خواہ تصور کرتے مگر اب جو وہ تعلیم و تحقیق کے سلسلے میں اقدامات اٹھارہے ہیں وہ سراسر ملک کی تعلیمی و تحقیقی تر قی کے آگے کوہ گراں کھڑا کرنے کے مترادف ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ ایک تو ان کی تہذیب سے انہیں دور کردیا جائے اور دوسرا سائنسی علوم کو ان کی دسترس سے حتی الامکان دور رکھاجائے۔ چنانچہ اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
بات ہورہی تھی معیاری نصابی کتب کی۔ تو جناب عالیٰ ہر ملک اپنا نصابی معیار، اپنی زبان و ثقافت اور ماحول کے مطابق مقرر کرتا ہے۔ ایک ملک کا نصاب دوسرے ملک کے لیے معیاری قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عالمی فلمی میلے میں دنیا بھر کے ممالک شرکت کرتے ہیں ایسا تو نہیں ہوتا کہ تمام ممالک ایک ہی زبان میں فلمیں بناکر میلے میں شریک ہوتے ہوں۔ ہر ملک اپنی اپنی زبان میں ہی فلمیں بناتا ہے اور میلے میں مقابلے کے لیے شریک ہوجاتا ہے۔ کسی مخصوص زبان کو مدنظر رکھ کر کسی فلم کو معیاری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کسی دوسری زبان کی فلم انگریزی زبان کی فلم پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ جس زبان اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے جو فلم بنائی جاتی ہے وہ ظاہر ہے اسی ملک کے لوگوں کے لیے قابلِ فہم اور معیاری تصور کی جائے گی۔ اگر اسے کسی دوسرے زبان و ثقافت کے ملک میں دکھایا جائے تو ظاہر ہے لوگ نہیں دیکھیں گے کیونکہ ان کے لیے ان کے زبان و بیان کو سمجھنا مشکل ہوگا۔ وہ کامیابی کے ساتھ چلے گی صرف اپنے ہی ملک میں۔ اگر کوئی غیر زبان کے لوگ میں اس کی نمائش کی کوشش کرے گا تو اسے احمق ہی سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک زبان کے لوگوں کے لیے کچھ کتابیں معیاری ہیں تو انہیں دوسری زبان و ثقافت کے لوگوں میں رائج کرنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ دراصل ان کے مطابق معیاری کتاب وہی ہوسکتی ہے جو انگریزی میں لکھی ہوئی ہو۔ ان کے نزدیک وہ فقرہ معیاری ہوگا جس میں سو روپے کی بجائے Hundred Rupeesلکھا ہوا ہو (حالانکہ دونوں طرح لکھنے سے رہتے سو روپے ہی ہیں۔ کم یا زیادہ نہیں ہوتے) ، پانی کی بجائے Waterلکھا ہوا ہو۔ پانی کا لفظ ان کے لیے غیر معیاری اور Waterکا لفظ معیاری ہوتا ہے ۔ شاید کسی دن یہ لوگ قانون بھی نافذ کردیں گے کہ پانی سے مراد غیر معیاری پانی لیا جائے اور Waterسے مراد معیاری پانی۔ ان کے نزدیک Thank youکہنے سے تو شکریہ اچھے طریقے سے ادا ہوجاتا ہے مگر’’آپ کا شکریہ‘‘کہنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ مگر Newspaperگردن تان کر کہتے ہیں۔’’دل کا دورہ‘‘ کہنے سے دورہ پڑتا ہے مگر Heart Attackکہنے میں شاید ہوش آجاتا ہے۔ چچی سے نفرت تو کرتے ہیں مگر آنٹی تندمزاج ہوتو اچھی لگتی ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند کے پیمانے بڑے عجیب ہیں دراصل اپنے دل و دماغ میں انہوں نے انگریز پالا ہوا ہے جو ان کے لیے الفاظ و فقرات اور پسند و ناپسند کے پیمانے وضع کرتا ہے۔ جب کبھی یہ اپنی زبان کے الفاظ بولنے لگتے ہیں یہ انگریز نہیں نکلتا، ان کا ذہنی توازن درست نہیں ہوسکتا۔ مثل مشہور ہے کہ جب کنویں میں کتا گرجائے تو پانی صاف کرنے کے لیے پہلے کتے کو نکالا جاتا ہے کہ پانی کے ڈول بھر بھر کر باہر نکالنے سے پانی صاف ہوتا ہے۔ ان کے ذہنوں کو بھی غلامی کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے پہلے اس انگریز کو مارنا ضروری ہے۔ باہررہنے والا انگریزی اتنا خطرناک نہیں جتنا یہ چھپا ہوا انگریز خطرناک ہے۔ یہی انگریز ہے جس نے ان سے ان کی تمام تر تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں سلب کرلی ہیں۔ یہی انگریز ان کو ان کے دماغ سے سوچنے نہیں دیتا۔ اسی انگریز نے ان کے دماغوں کو تالے لگائے ہوئے ہیں اور چابی یہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ یہ شیطان کی طرح ان کی رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے ۔ یہی انگریز ان کو ان کی قومی زبان سے نفرت کرنا سکھاتا ہے۔ یہی انگریز ان کو دھوکہ دیتا ہے کہ تم اپنی زبان میں جدید علوم نہیں حاصل کرسکتے ہو۔ یہی انگریز ان کو اردو ذریعہ تعلیم سے ہر وقت خوف زدہ رکھتا ہے کیونکہ انگریزی ذریعہ تعلیم سے ہی اس کی بقا ممکن ہے۔ یہی انگریز ان سے کہتا ہے کہ تم اپنا نصاب تعلیم خود تیار کرنے کے قابل نہیں ہو۔ یہی انگریز ان کے حوصلے پست رکھتا ہے۔ اسی انگریز نے ان سے اعتماد کی دولت چھین رکھی ہے۔ الغرض یہی اندر کا انگریزی ہے جس نے ان کو سوچنے سمجھنے والے خلیوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ یہی ان سے اگلواتا ہے کہ تم خود نصاب تیار کرنے کی بجائے بین الاقومی طور پر تسلیم شدہInternationally Recognizedنصاب اپنی تعلیمی اداروں میں رائج کرو۔
اگر ان میں تھوڑی سی عقل ہوتو یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسا کہنا تو دراصل ان کی اپنی نااہلی کو ثابت کرتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا یہ پوچھ سکتا ہے کہ جناب آپ کس باغ کی مولی ہیں؟ آپ نے اتنی ڈگریاں کیا چھولے دے کر حاصل کی ہیں؟ آپ معیاری نصاب کیوں نہیں تخلیق کرسکتے؟ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اپنے تیار کردہ نصاب پر اندر ہی اندر نادم ہیں۔ ان کے نصابی معیار کے فرسود ہ خدوخال کو لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اب یہ اپنی خفت مٹانے کے لیے کھسیانی بلی کی طرح ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ یہ خود نہیں بولتے، ان کے اندر کا فروخت شدہ انسان بولتا ہے۔ جس نے وطن عزیز کی سائنسی چولوں کو ہلانے کی قیمت پر تعلیمی اداروں کے سائنسی نصاب پر نقب زنی کی ہے۔
انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے گردو نواح اور حالات و واقعات سے سبق حاصل کرے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک نے جو ترقی کی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کے طریقہ کار کو دیکھیں اور اپنی زبان وہ تہذیب اور زمینی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مربوط اور مؤثر حکمت عملی وضع کریں۔ یہ ممالک اپنے اسکولوں، کالجوں اور یو نیورسٹیوں کے لیے اپنا نصاب خود تیار کرتے ہیں۔ کسی بین الاقوامی تسلیم شدہ کتاب کو اپنے لیے مفید قرار نہیں دیتے جب تک کہ وہ ان کے زبان و بیان اور ثقافتی اقدار پر پوری نہ اترے۔ ان سے استفادہ تو وہ یقیناً کرتے ہیں مگر انہیں اپنے لیے معیاری قرار نہیں دیتے۔ انہیں اپنے اداروں میں بطور نصاب نہیں پڑھاتے۔ ان کا یہ طرز عمل ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔ترقی کا راز ہم سب پر واضح ہے مگر تعلیم و تدریس اور پالیسی سازی اس کی زمان کا ران محب وطن لوگوں کے پاس ہوجو یہ کام کرنا چاہتے ہوں۔نہ کہ ان لوگوں کے پاس جو ملک کے تعلیمی نظام کو چند ٹکوں کے لالچ میں ٹھیکے پر دینے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ موجود نظام تعلیم ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو کسی طرح بھی اسے چلانے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کے پاس نہ اپنی کوئی سوچ ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی۔
انسان کے بازو کو کچھ دنوں کے لیے باندھ دیا جائے تو وہ بالا خر ساکت ہوجاتا ہے۔ حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ یہی حال انسانی دماغ کا بھی ہے۔ اگر دماغ سے بھی کچھ عرصے کے لیے سوچنے سمجھنے کا کام نہ لیا جائے تو یہ بھی کام کے قابل نہیں رہتا۔ تحریر وتحقیق اور جدت وتخلیق اسے زندہ رکھتی ہے ۔ د وسروں کے کیے ہوئے کام پر اکتفا کرنا، دوسروں کی تیار کی ہوئی نصابی کتابوں کومعیاری کتابوں کے نام سے نافذ العمل کرنا اور خود معیاری کتابیں نہ لکھنا دراصل اپنے دماغوں کو لمبی نیند سلانے کے مترادف ہے۔ ہمارے دماغوں کو یہی مدہوش اور نیم بے ہوشی سامراجی حکومتوں کا مقصود و منتہی ہے۔ ذرا غور کریں کہ جب ہم تحریر و تحقیق کے کام خود نہیں کریں گے تو ہمارے دماغوں کے سوچنے سمجھنے والے خلیے کس طرح متحرک رہ سکیں گے؟ جو پکی پکائی کھانے کا عادی ہوجائے اس کے دل، دماغ اور جسم سے کام نکل جاتا ہے۔ ایسا بے کار آدمی ملک و قوم کے لیے ایک عضو معطل بن جاتا ہے۔جو لوگ اغیار کا تیار شدہ نصاب وطن عزیز میں لاکر رائج کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل نسل نوکو بے کارگی کی ایسی بند گلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستی تلاش کرتے کرتے سروں کے مینار بن جاتے ہیں۔ دریاؤں کے پانی قوموں کے خون سے سرخ ہوجاتے ہیں۔ غلطی چند لمحوں کی ہوتی ہے مگر سزا صدیوں بھگتنی پڑتی ہے۔ غلطی چند افراد کی ہوتی ہے مگر سزا پوری قوم کو ملتی ہے۔
سامراجی ممالک نے جہاں کہیں بھی قبضے کا منصوبہ بنایا ہے سب سے پہلے انہوں نے اس ملک کے ذریعہ تعلیم کو بدلا ہے۔ تاکہ وہاں کے لوگ اپنی زبان میں کوئی تحقیقی کام نہ کرسکیں۔ تعلیمی و تحقیقی ذخیرہ ان کی اپنی زبان میں جمع نہ ہونے پائے۔ لوگوں میں ان کی اپنی زبانوں میں لکھنے کا مزاج ہی ختم ہوجائے۔ اسی لیے وہ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں ان کی اپنی زبانوں کی بطور ذریعہ تعلیم مخالفت کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے وہاں کے لوگ علوم و فنون کو سمجھنا شروع کردیں گے۔ اور جب سمجھنا شروع کردیں گے تو ترقی و خوشحالی کے ذریعے ان کے مدمقابل آجائیں گے۔ اسی خطرے کو مدنظر رکھ کر وہ ہماری تعلیمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ ہماری توانائیاں اور سرمایہ ایسی جدوجہد میں لگانا چاہتے ہیں جس کے فوائد و ثمرات تمام لوگوں کی بجائے چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائیں۔ اس کے لیے وہ ایسے افراد تلاش کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مذموم مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ موجودہ نصاب تعلیم کی تبدیلی بھی انہیں مذموم مقاصد کی تکمیل کا پیش خیمہ ہے۔
ایک ناخواندہ غبی شخص بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہماری اور انگریزوں کی انگلش فہمی میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہ فرق فطری ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انگریزوں کی انگریزی میں لکھی ہوئی کسی معیاری کتاب کا فہم و ابلاغ ہمارے لیے بھی اتنا ہی ہو جتنا کہ انگریزوں کے لیے ہے۔ ان کے زبان و ادب کے مطابق لکھی ہوئی تحریر کو ہمارے لیے پڑھنا، لکھنا، سمجھنا اور اس میں اظہارخیال کرنا اردو کی نسبت سینکڑوں گنا مشکل ہے۔ اب ہم ترقی اس لیے نہیں کرتے کہ ہماری توانائیوں اور سرمائے کا بیشتر حصہ انگلش فہمی کی نذر ہوجاتا ہے ۔ زبان سمجھ نہ آئے تو نفس مضمون کی سمجھ نہیں آتی۔ اسی لیے ترقی کرنے والے ممالک میں اپنی قومی زبانوں میں ہی نصاب کو لکھتے اور اپنے تعلیمی اداروں میں نافذ کرتے ہیں۔سامراجی ممالک کی بھی یہی چال ہے کہ جس ملک کو وہ ترقی کرتے نہیں دیکھنا چاہتے ان میں وہ اپنی زبانوں میں نصاب رائج کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں ۔ دنیا کے تمام ممالک پر ذرا نظر دوڑائیے۔ جتنے ممالک بھی غریب، غیر ترقی یافتہ اور سائنس و ٹیکنا لوجی میں پیچھے ہیں، کم و بیش ان سب کا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم سامراجیوں نے اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھا ہے اور سائنس و ٹیکنا لوجی جیسے جدید علوم ان ممالک کو ان کی قومی زبانوں میں نہیں پڑھنے دیتے۔ جس کی وجہ سے ٹیوشن بزنس نے ان کی سائنسی تعلیمی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان کو ہی لیجئے۔ شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہوگا جو بغیر ٹیوشن کے سائنسی مضامین کاامتحان پاس کرنے کا سوچتا بھی ہو۔ سائنس پر اپنی زبانوں میں کتابیں لکھنے والے افراد کا اتنا قحط کیوں پڑا ہوا ہے؟ اس لیے کہ لکھنے والوں کو تو کسی اور کام میں الجھا کے رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کا تعلیمی بجٹ اتنا نہیں ہوگا جتنا طلبا و طالبات کو ہر سال ٹیوشن میں جھونکنا پڑتا ہے۔ کسی پالیسی ساز اور نصب ساز کو اس لامحدود سرمائے اور توانائیوں کو یہ ضیاع نظر نہیں آتا؟ یہ المیہ صرف پاکستان کا ہی نہیں پوری اُمت مسلمہ کا ہے۔ اس کے برعکس جن ممالک کا نصاب ان کے اپنے لوگوں نے اپنی قومی زبان میں لکھا اور نافذ کیا ہے ان تمام کا شمارترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا ہے۔ ان میں ٹیوشن ،خلاصہ جات اور بنے بنائے نوٹسوں کا روگ نہیں ہے۔ نصاب چونکہ تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی وخوشحالی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ملک دشمن عناصر اسی بنیاد کو ہی مسمار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ تعلیمی اور نصابی پالیسی بھی انہی کوششوں کا شاخسانہ ہے۔ خدا ان پالیسی سازوں اور نصاب سازوں سے قوم کو جلدی نجات دلائے۔ آمین
کوئی بھی ملک جب کسی غیر ملکی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کرتا ہے، انہیں کی کتابوں کو اپنے تعلیمی اداروں میں نافذ کرتا ہے تو لامحالہ اس ملک کی تہذیب بھی اس زبان کے الفاظ وفقرات میں لپٹ کر آتی ہے۔ کتابوں میں لکھے ہوئے الفاظ حروف تہجی کا مجموعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنے اوپر تہذیب و ثقافت کی گٹھڑیاں بھی اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ فہم و ابلاغ کی مشکلات کے علاوہ اس ملک کے عوام کو غیر ملکی تہذیب و ثقافت کی یلغار کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علوم وفنون کی ترقی بھی رک جاتی ہے اور ملک کے اندر تہذیبی ، معاشرتی اور فکری انتشار بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی فکری انتشار عوام الناس کو یکسو ہوکر کوئی بڑا کام کرنے سے روکتا ہے۔ لوگوں کو ایک منظم قوم کی حیثیت سے کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہونے دیتا۔ مفاد پرستوں اور محب وطن لوگوں کے درمیان ایک کشمکش اور رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے۔ ملک کے وسائل اور توانائیوں کا بیشتر تماشا دیکھتے ہیں اور اپنے شیطانی منصوبوں کو تکمیل کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر بگلیں بجاتے ہیں ۔ اور تماشا بننے والوں کی حماقتوں پر جام وسبو لہرا لہرا کر قہقہے بلند کرتے ہیں۔ لہٰذا  ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے محب وطن دانشور، مفکر ، اساتذہ ، شاعرہ، ادیب ، سائنسدان ، علماءاور مدبرین سرجوڑ کر بیٹھیں اور تمام سطح کے جدید علوم و فنون کو اپنی قومی زبان کے سانچے میں ڈھالیں اور انہیں عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔ یہی اس امت کے مرض کہن کا چارہ ہے۔ یہی اس کی ڈگمگاتی ہوئی ناؤ کو سنبھالا دینے کا راستہ ہے۔ اسی سے قومیں قعر مذلت سے نکل کر اوج ثریا کو چھو سکتی ہیں۔ گرے ہوئے لوگوں کو عزت وقار سے ہم کنار کرنے کی بس یہی سبیل ہے۔ اس کے علاوہ سب راستے خاردار ہے۔ اسی لیے ان پر چلنے والوں کے دامن بھی تار تار ہیں۔

)ماہنامہ ہمقدم لاہور(

No comments:

Post a Comment