مردوں کے کان
ریحان
احمد یوسفی
اردو
زبان میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ مردوں کے کان ہوتے ہیں آنکھیں نہیں ہوتیں ۔ یہ
کہاوت ظاہرہے خاندانی جھگڑ وں میں مردوں کے کردار کا بیان ہے ، مگر درحقیقت یہ ایک
ایسی انسانی کمزوری کا بیان ہے جس پر اگر قابو نہ پایاجائے تو معاشرہ ہر پہلو سے
انتشار کا شکار ہو سکتا ہے ۔
ساس بہو کا جھگڑ اہماری معاشرت کا ایک حصہ ہے ۔ اس جنگ میں
فریقین کی خواہش ہوتی ہے کہ مرد جو کہ ماں کا بیٹا اور بیوی کا شوہر ہوتا ہے ، اسے
اپنی طرف کر لیا جائے ۔ کسی بھی اختلاف کی شکل میں دونوں طرف کی خواتین بات کو
اپنے انداز سے بیان کرتی ہیں ۔ ایسے میں مرد اگر صرف اپنے کانوں کا استعمال کرے
اورجو فریق زیادہ چرب زبان اور ہوشیار ہو اس کی باتوں کو درست مان کر اس کی
طرفداری کرنے لگے تو وہ زیادتی کا مرتکب ہو گا۔ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی
آنکھیں بھی استعمال کرے ۔یعنی حقائق کا جائزہ لے ، ہر معاملے کی پوری تحقیق کرے اور
اس کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرے ۔
سنی
سنائی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے پوری معلومات، مکمل چھان بین اور غیر
جانبدارانہ تحقیق کے بعد رائے قائم کرنا نہ صرف ہمارے دین کی ایک بنیادی تعلیم ہے
بلکہ علم، اخلاق اور عقل کا بھی ایک لازمی تقاضاہے ۔ بدقسمتی سے اس دور
انحطاط میں مسلمان جن اعلیٰ اخلاقی اور دینی صفات سے محروم ہو چکے ہیں ، ان میں سے
ایک وصف یہ بھی ہے ۔ اس کے نتائج ہم خاندانی جھگڑ وں کی شکل میں بھی دیکھتے ہیں
اور معاشرے میں روز افزوں انتشار، عناد، باہمی نفرت اور تعلقات کی خرابی کی شکل
میں ہر روز ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
لیکن ایک حقیقی مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کانوں کے ساتھ آنکھوں کا بھی استعمال کرے اور تعصب سے دور رہ کر مکمل تحقیق کے بعد ہی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے ۔
لیکن ایک حقیقی مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کانوں کے ساتھ آنکھوں کا بھی استعمال کرے اور تعصب سے دور رہ کر مکمل تحقیق کے بعد ہی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے ۔
No comments:
Post a Comment