Thursday, 2 February 2012

کائنات کے پانچ راز

کائنات کے پانچ راز

ڈاکٹر عبد الغنی فاروق

یہ عہد حاضر کی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحقیقات اور ایجادات کے اعتبار سے سائنس کے کمالات آج اپنے پورے عروج پر ہیں۔چنانچہ حیاتِ انسانی کے ان گنت شعبوں کے علاوہ سائنسدانوں نے بری ،بحری اور فضائی حوالوں سے ایسی ایسی تحقیقات کی ہیں اور جنگلوں ،صحراؤں،سمندرں اور پہاڑوں کے بارے میں ایسی ایسی نادر و نایاب معلومات فراہم کی ہیں کہ جن کا مطالعہ کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتوں کا مزید انکشاف ہوتا ہے۔
جو ایمان میں اضافے اور پختگی کا سبب بنتی ہیں۔حقیقت ہے کہ علم وتحقیق کے حوالے سے یہ سائنس دان بصیرت و فراست رکھنے والے ہر فرد کے محسن ہیں۔اور ان کے لئے دل میں بے اختیار تشکر اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
لیکن سائنس کی بے مثال اور محیرالعقول ترقیوں کے باوجود کرۂ ارض اور کائنات کے حوالے سے چند سوالات ایسے ہیں کہ سائنس دان تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے جواب تلاش نہیں کر سکے اور سال ہا سال کی تلاش وجستجو کے باوجود ان کی کوئی وضاحت اور توجیہہ سامنے نہ آسکی۔وہ سوالات درج ذیل ہیں:
١۔ برمودا مثلث (ٹرئی اینگل)کا راز کیا ہے؟
 ٢۔ اُڑن طشتریوں کی حقیقت کیا ہے؟
 ٣۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنی دوربین ’’ہبل‘‘ کے ذریعے سے کائنات کے دور دراز گوشوں کی جو تصاویر حالیہ برسوں میں فراہم کی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟
٤۔بلیک ہولزدراصل کیا ہے؟
٥۔ دنیا میں گرمی کا تناسب کیوں بڑھ رہا ہے اور گلیشیئر کیوں پگھلنے لگ گئے ہیں؟ 
آیئے سب سے پہلے برمودا مثلث کے راز کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں اس امر کو کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک اوسط درجے کی صلاحیتوں کا ایک فرد ہوں اور دینی اور سائنسی حوالوں سے میرا مطالعہ بہت محدود ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے میں جدید ترین سائنسی معلومات بہت شوق اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان سے ایسے نتائج اخذ کر لیتا ہوں جو نادر ہیں اور ایمان میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں۔آیئے آپ بھی اس مطالعہ میں میرے شریک ہو جائیے۔
امریکہ کے جنوب مشرقی ساحلوں کے قریب بحراوقیانوس میں برمودا نامی جزائر ہیں۔ان جزائر کے قریب میں ایک مثلث نما ٹراینگل بحری علاقہ صدیوں سے پراسرار واقعات کا موضوع بنا ہوا ہے ۔اس علاقہ سے گزرنے والے بحری جہاز ،کشتیاں بلکہ ہوائی جہاز بھی ٹھیک اس علاقہ میں جا کر غائب ہو جاتے ہیں۔اور پھر ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا ۔چنانچہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اب تک ڈیڑھ سو بحری اور ہوائی جہاز اور ہزاروں افراد کوئی سراغ یا نشان چھوڑے بغیر یہاں غائب ہو چکے ہیں۔
١٩٧٤۔٧٦ءکے دو سالوں میں چھ سو سے زیادہ کشتیاں او ر چھوٹے جہاز اس علاقے میں گم ہو گئے اور ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔مثلث برمودا عہد حاضر کا شاید سب سے بڑا راز ہے ۔امریکہ اور یورپ بھر کے سائنس دان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس راز کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب نہیں ہٹا سکے ہیں ۔اس علاقہ میں بے حد حیرت انگیز واقعات رونما ہو تے ہیں۔جن کی کوئی بھی سائنسی یا عقلی توجیہہ نہیں کی جا سکی۔یہاں پہنچتے ہی ہوائی جہازوں کے کمپاس کی سوئیاں تیزی سے گھومنے لگتی ہیں۔اور ’’جائرو سکوپ ‘‘(جہاز کے توازن اور سمت کو درست رکھنے والا آلہ )ناکارہ ہو جاتے ہیں،ریڈیائی پیغامات میں خلل آجاتا ہے اور جہازوں کے پائلٹ ایک بالکل ہی انوکھے ماحو ل میں گھر جاتے ہیں،چنانچہ ان کے جو آخری پیغامات کنٹرول روم میں سنائی دیتے ہیں وہ شدید خوف اور گھبراہٹ کی عکاسی کر تے ہیں۔یہاں مکمل اندھیرا ہے گھپ اندھیرا ، جہاز بے قابو ہو تاجا رہا ہے ، ہم کہاں جا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ۔اور اس کے بعد گہری خاموشی چھاجاتی ہے ہمیشہ کی خاموشی ....اور عجیب بات یہ ہے کہ ان حادثات کی زد میں آنے والا کبھی ایک فرد بھی زندہ نہیں بچا.... اور گم ہونے والے ہوائی یا بحری جہاز کی تلاش میں جو ٹیمیں اُدھر گئیں وہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آئیں، نہ ان کا کوئی نشان یا پتہ مل سکا ۔
البتہ چند جہا ز جو اس فضا کی لپیٹ میں آتو گئے ، لیکن دس پندرہ منٹ کے بعد انہیں رہائی مل گئی ، تو حیرت انگیز طور پر ان کی گھڑیاں پیچھے رہ گئیں۔اس علاقہ کی پراسراریت کا یہ عالم ہے کہ دسمبر١٩٤٥ءمیں پانچ امریکن بمبار ہوائی جہاز وں کا پورا ایک فلیٹ تربیتی پرواز کے دوران یوں غائب ہو گیا کہ جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہ تھا اور جب یہ حادثہ پیش آیا تو موسم بڑا ہی سازگار تھا اور سمندری طوفان یا جھگڑ کا کوئی وجود نہ تھا ۔اس طرح برٹش ساؤتھ امریکہ ایئر لائنز کے تین جہاز اپنے تمام مسافروں سمیت غائب غلہ ہو گئے اور ان کا کوئی نشان نہ ملا۔
غائب ہونے والے جہازوں کے کپتانوں نے آخری پیغامات میں اپنے سامنے چمکدار بادلوں اور سفید پانیوں کا ذکر تکرار کے ساتھ کیا ہے۔ سب سے حیرت انگیز اور پر اسرار چیز اس علاقہ میں اُڑن طشتریوں کا وجود ہے،جن کو اب تک ہزاروں افراد کھلی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ڈسک کی شکل یہ خلائی گاڑیاں برمودا کی فضاؤں میں عام اُڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ان کی رفتا ر غیر معمولی حد تک تیز ہوتی ہے، ان میں سے کوئی آواز برآمد نہیں ہوتی اور ان کا رنگ کبھی سرخ اور کبھی نارنجی شیڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں.... یہ یکایک نمودار ہوتی اور کوئی شور پیدا کئے بغیر یکایک سمندر میں غائب ہوجاتی ہے۔ بے شمار لوگوں نے دیکھا ہے کہ برمودا کے پانیوں میں سے ایک ’’جہاز‘‘نکلتا ہے اور آواز پیدا کئے بغیر آسمان کی وسعتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یکایک ایک جہاز فضا میں نمودار ہوتا ہے اور سمندر میں اس طرح غوطہ لگاجاتا ہے کہ نہ پانی اڑتا ہے اورنہ لہریں ۔١٩٧٠ءتک بارہ ہزار چھ سو اٹھارہ افراد نے شہادت دی کہ انہوں نے برمودا کی فضاؤں میں پراسرار اُڑن طشتریاں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔
اسی نوعیت کے ان گنت، محیر العقول واقعات وقوع پزید ہوتے رہتے ہیں۔ ایک بار رات کے پونے بارہ بجے ایک امریکی بحری جہاز برمودا کے علاقے میں محوِ سفر تھا ۔ کوئی چلایا کہ جہاز کے دائیں جانب والے نگران نے کوئی چیز دیکھی ہے اور وہ بے ہوش ہوگیا ہے۔ کوئی اور چیخا کہ باہر کوئی پراسرار چیز ہے۔ اس جہاز کا ایک افسر رابرٹ ریلے لکھتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی معیت میں باہر نکلا۔ دیکھا کہ چاند جیسی کوئی چیز تھی جو تقریباً پندرہ میل کے فاصلے پرافق سے بلند ہورہی تھی۔ مگر اس کا حجم چاند سے تقریباً ایک ہزار گناہ بڑا تھا، وہ چیز خود بے حد روشن تھی، مگر اس سے روشنی خارج نہیں ہورہی تھی۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ چیز راڈار پر نظر نہیں آرہی تھی۔
اسی طرح گوبھی کے پھول سے مشابہ پانی کے ایک بڑے پہاڑ کے بلند ہونے کا منظر١١اپریل١٩٦٣ءکو بوئنگ٠٧٠کے ہوا بازوں نے دیکھا۔ یہ منظر دن کے ڈیرھ بجے اکتیس ہزار فٹ کی بلندی سے پائلٹ ، کیپٹن اور فلائیٹ انجینئروں نے بڑے واضح انداز میں دیکھا۔ پانی کے اس پہاڑ کی چوڑائی تقریباً ایک میل اور بلندی تقریباً تین ہزار فٹ تھی۔
صاف کھلے وسیع آسمان پر عجیب وغریب ساخت کے بادلوں کا مشاہدہ بھی یہاں روزمرہ کا معمول ہے ۔ یہ بادل ڈراؤنے انداز میں چمکتے اور عجیب عجیب شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ائیر فورس کا ایک طیارہ اسی طرح بادلوں کے قریب سے گزرا تو ان میں سے انتہائی تیز سرچ لائیٹ کی شعاع نکلی اور تقریباً دو سیکنڈ تک جہاز کے گردوپیش کا جائزہ لیتی رہی ، پھر طیارے پرآکر ٹھہر گئی اور اس وقت تک طیارے کو اپنے حصار میں لیے رہی جب تک طیارہ بادلوں کے قریب سے نہیں گزرگیا۔ یہ سب کچھ چھ سیکنڈ میں ہوگیا۔ پائلٹ نے صورت ِ حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے طیارے کا رخ جلدی سے موڑ لیا۔
برمودا کے علاقے میں ایسی مثالیں بہت سی ہیں کہ بحری جہاز تو سلامت رہا لیکن اس کے سیکڑوں مسافر پراسرار طور پر غائب ہوگئے اور ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ مسافروں کے کمروں میں ایک ایک چیز صحیح حالت میں اپنی اپنی جگہ موجود پائی گئی۔
اور جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بعض ہوائی جہاز اس فضا میں غیر معمولی حالات سے دوچار ہوئے، ان کے سارے آلات جام ہوگئے، وہ شدید ترین تاریکیوں میں گھر گئے، لیکن پھر اس بحرانی کیفیت سے نکل گئے، لیکن حیرت انگیز طور پر جہاز کی اور عملے کی گھڑیاں دس یا پندرہ منٹ پیچھے ہوگئیں۔
مثلث برمودا کے پر اسرار کا ایک حیرت انگیز پہلو.... لانگ وڈ کالج ورجینیا کے فزکس کے پروفیسر وائن مشیجن اپنے معاونین کے ساتھ تین برسوں سے موسمی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر کے تجزیے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ گزشتہ دو سالوں میں موسمی سیارے آٹھ سو میل کی بلندی پر جب برمودا مثلث کے عین اوپر پہنچے تو ان کے سارے آلات ایک دم ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ٹیپ شدہ تصاویر میں سگنلز کی ترسیل بند ہوجاتی ہے۔
برمودا مثلث کے بارے میں یہ معلومات میں نے ان مضامین سے حاصل کی ہیں جو کراچی کے ماہنامہ "سائنس ڈائجسٹ" میں نومبر١٩٩٨ءسے فروری٢٠٠٠ءتک مسلسل تیرہ قسطوں میں شائع ہوتے رہے۔
برمودا مثلث کے اسرار کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کنہ تک پہنچنے کی بہت سے سائنس دانوں اور محققین نے کوشش کی ہے مگر سچی بات ہے کہ کسی ایک کو بھی مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جب کہ حال ہی کہ گم شدہ بحری اور ہوائی جہازوں کی تلاش میں جانے والی ایک تحقیقاتی ٹیم بھی واپس نہیں آئی اور آٹھ سو میل کی بلندی پر بھی خلائی سیاروں کے آلات برمودادمثلث کے اوپر آکر بے کار ہوجاتے ہیں تو اس راز کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کون کرسکتا ہے؟چناچہ اس حوالے سے جتنی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں، ان میں محض اٹکل پچو سے کام لیا گیا ہے، بے سروپامفروضے ہیں جو پیش کیے گئے ہیں اور متذکرہ نوعیت کے محیر العقول واقعات کا کوئی ٹھوس ، قابل قبول سبب بیان نہیں کیا گیا۔ چناچہ روز اوّل کی طرح یہ معّما آج بھی لاینحل ہے اور اس کی کوئی سائنسی ، عقلی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکی۔
میرے نزدیک برموادا مثلث کے اسرار کی ایک ہی توجیہہ ہے کہ ہم کامل اعتماد کے ساتھ قرآن پاک اور نبی اکرام صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے اپنا حاصل مطالعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
قرآن پاک میں ہے کہ موت کے بعد انسان کی گناہ گار یا مجرم روحیں سجین میں رکھی جاتی ہیں جبکہ نیک روہوں کو علییّن میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ (سورةالمطففّین٨٣:آیات١٨،٧)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علییّن کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علییّن توآسمانوں پر ہے جبکہ سجیّن زمین کی گہرائیوں کے اندر ہے۔ سجیّن کے لغوی معنی ہیں کھلے منہ کا تنگ ، گہرا غار۔(روایت حضرت ابراءبن عازب تفسیر ابن کثیر سورة المطففّین ، جلد پنجم و مسند امام احمد جلد چہارم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث ہے کہ جب ایک شخص مرتا ہے تو دفن ہونے تک اس کی روح وہیں موجود رہتی ہے اور اس کے لواحقین جو کچھ کررہے ہوتے ہیں، اسے دیکھتی اور سنتی ہے لیکن کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں ہوتی۔(اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم )
اس تناظر میں امر یہ کے ایک باہمت سائنس دان ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی نے بڑے ہی نادر موضوع پر تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ’’لائف افٹر لائف‘‘کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ، جس کا ترجمہ ستار طاہر مرحوم نے ’’موت کے بعد زندگی‘‘کے عنوان سے کیا تھا اور اسے ’’دارالبلاغ‘‘ محمد نگر، لاہور نے نومبر1980ءمیں شائع کیا تھا۔ ڈاکٹر موڈی نے ڈیڑھ سو ایسے افراد تلاش کرلیے جو کسی حادثے یا بیماری کے نتیجے میں مرگئے تھے اور انہیں کلینیکل ڈیڈ قرار دے دیا گیا تھا، لیکن کچھ دیر کے بعد وہ زندہ ہوکر ہوش میں آگئے۔ موصوف نے ان سے انٹرویو کئے۔
کم وبیش ان سب نے تین باتیں مشترک طور پر بیان کیں۔
ایک یہ کہ وہ اپنے ہی جسم کو کچھ فاصلے سے مردہ حالت میں دیکھ رہے تھے۔ یعنی ایک شخص اپنی کار میں سفر کررہا تھا۔ راستے میں اسے سنگین حادثہ پیش آگیا۔ اس نے بتایا کہ میں حیران تھا کہ میرا جسم کار میں بے جان حالت میں پڑا تھا، اور میں باہر کھڑا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ لوگ شور مچار ہے تھے، کار کو کاٹ رہے تھے، پھر انہوں نے میرے جسم کو باہر نکالا اور فٹ پاتھ پر لٹاد یا اور میں یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد مجھے ایک گہرے غار میں لے جایا گیا جس کے آخری کنارے پر روشنی نظر آرہی تھی ، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے واپس لایا گیا، میرا اصل جسم حرکت میں آگیا اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
اس نوعیت کے تجربات سب نے بیان کیے ہیں، یعنی اپنے مردہ جسم کو فاصلے سے دیکھنا، ایک گہرے غار میں اترنا اور غار کے آخری کنارے پر روشنی کا نظر آنا۔
ایک عورت دل کی مریضہ تھی۔ اسے آپریشن کے لیے آپریشن تھیڑ میں لے جایا گیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس کے دل نے تو حرکت کرنا بند کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے جسم سے نکل کر چھت کے ساتھ معلق ہوگئی اورا سٹریچر پر پڑے ہوئے اپنے جسم کو دیکھنے لگی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ایک نرس میرے منہ کے ساتھ منہ لگا کر مصنوعی تنفس دینے کی کوشش کررہی تھی.... اس اثنا میں مجھے ایک طرف لے جایا گیا اور عجیب بات یہ کہ میں درختوں اور چٹانوں کے اندر سے گزرتی ہوئی جارہی تھی حتیٰ کہ مجھے ایک غار میں لے جایا گیا، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے واپس لایا گیا اور میں نے اسڑیچر پر پڑے پڑے آنکھیں کھول دیں۔
گویا اس طرح نبی اکرم صلی علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی دونوں باتوں کی من وعن تصدیق ہوگئی کہ ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے دفن ہونے تک اس کی روح وہاں موجود رہتی ہے اور جو کچھ اردگرد کے ماحول میں ہورہا ہوتا ہے ، اسے قائمی ہوش وحواس دیکھتی ہے ۔ گویا اس سے یہ بھی تصدیق ہوگئی کہ روح جسم سے الگ، اپنی ایک علیحدہ ، باقاعدہ حیثیت رکھتی ہے۔
ثانیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجرم روحیں سجّین میں رکھی جاتی ہیں اور سجّین زمین کے اندر ہے۔ اور چونکہ انٹرویو دینے والے یعنی عارضی طور پر مرنے والے سب غیر مسلم ہیں ،اس لیے ان سب نے ایک غار کا ذکر کیا ہے اور وہی سجین کا غار ہے۔
چناچہ ان معلومات کی روشنی میں جن کی تصدیق عقائد، شواہد اور عقل تینوں اعتبار سے ہورہی ہے، ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ برمودا مثلث دراصل سجّین ہی کا راستہ ہے۔ مضبوط قرائن اس امر کے ہیں کہ لاکھوں فرشتے ہمہ وقت انسانی روحوں کو قبض کرکے سجّین کا رخ کرتے ہیں اور خدائی احکامات کے تحت جلد از جلد انہیں ان کے ٹھکانے پر پہنچانے کی فکر کرتے ہیں ۔ وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں لمحہ بھر کی تاخیر یا رکاوٹ برداشت نہیں کرتے، اس لیے سجّین کی طرف سفر کرتے ہوئے جو چیز ان کے راستے میں حائل ہوتی ہے، وہ اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس طرح بڑے بڑے ہوائی جہاز، بحری جہاز اور کشتیاں چشم زدن میں غائب ہوجاتی ہیں اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔(ایک اندازے کے مطابق روزانہ تقریباً ساٹھ لاکھ افراد مرتے ہیں جن کی اکثریت آبادی کی نسبت سے غیر مسلم اور بے عمل لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے)۔
کراچی کے مشہور عالم دین مولا نا مفتی تقی عثمانی  صاحب کی روایت کے مطابق ڈاکٹر ریمونڈ اے موڈی نے ’’لائف آفٹر لائف‘‘ کے بعد ’’دا لائٹ بیعونڈ"کے عنوان سے ایک اور کتاب مرتب کی جس میں مزید ایک ہزار افراد سے انٹر ویو کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض افرادنے بتایا کہ وہ نیچے چلتے گئے،وہاں ان گنت لوگ تھے،وہ بری طرح چیخ رہے تھے ، وہ سب ننگے تھے ،وہاں آگ تھی، وہ سب پانی ،پانی پکار ہے تھے.... وہ اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ شمار کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بیان سے سائنس دانوں کی اس رائے کی تصدیق ہوتی ہے کہ زمین کا اندورنی مرکز سورج ہی کی طرح گرم ہے۔ [1]
اور قرائن یہ ہیں کہ مجرم روحوں کی برموادا مثلث کے غار کے راستے زمین کے گرم ترین مرکز میں پہنچایا جاتا ہے۔ گویا مجرم اور ظالم روحیں بغیر کسی تاخیر کے عذاب کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرویو دینے والوں کی اکثریت نے غار کے آخری کنارے پر جس روشنی کا ذکر کیا ہے وہ دراصل زمین کے مرکز کی کھولتی ، دہکتی آگ ہے، جہاں مجرم روحوں کو مقید کیا جاتا ہے۔
اب اگر غور کریں تو اس امر کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ برمودا مثلث کے علاقے میں پراسرار اُڑن طشتریوں کی حقیقت کیا ہے؟ متذکرہ واقعات و مشاہدات کی روشنی میں دراصل یہ فرشتے ہیں جو مختلف روپ دھارکر اس فضا میں محو پرواز رہتے ہیں اور وجودیت کے علمبردار ، مادیت کے پرستار لوگوں کو زبانِ حال پرچیلنج کررہے ہوتے ہیں کہ تم خدا کا اس لیے انکار کرتے ہوکہ وہ نظر نہیں آتا، لیکن ہم تو اس وقت مختلف صورتوں میں نظر آرہے ہوتے ہیں، تب بتاؤ کہ ہم کیا ہیں؟ جرأت ہے تو ہمارا بھی انکار کرو، لیکن تم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہزاروں لوگ مختلف وقتوں میں کھلی آنکھوں سے ہمارا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہمارے حوالے سے حیرت انگیز تجربات سے دوچار ہوتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ برمودا مثلث کے اسرار اور اُڑن طشتریوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ دراصل یورپ خصوصاً دہریت والحاد کے امام امریکہ والوں پر عہد ِ حاضر میں حجّت تمام کردینا چاہتا ہے تاکہ وہ کھلی آنکھوں سے نظر آنے والے ان معجزات کو دیکھ کر اﷲ اور اس کے دین کا اقرار کرلیں اور باطل پرستی کا رویہ ترک کردیں۔
توقارئینِ کرام! ہمیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ برمواد مثلث دراصل سجّین کا راستہ ہے اور یہاں کی فضاؤں میں اُڑن طشتریاں ، عجیب غریب جہاز اور مافوق سفید بادل دراصل فرشتوں کے مختلف روپ ہیں، اس کے سوا اس کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی.... اور ہمیں یہ توجیہہ کرتے ہوئی ذرا بھی کسی کامپلکس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
ناساکی تصاویر کی حقیقت:
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی دوربین ہُبل نے جو تصاویر برسوں میں فراہم کی ہیں اور اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟
امریکی ماہرِ فلکیات ایڈون پاول ہبل نے ١٩٢٠ءمیں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہماری کہکشاں سے آگےکائنات خالی نہیں بلکہ وہاں بے شمار کہکشائیں موجود ہیں ۔ہبل ١٩٥٣ءمیں٦٤برس کی عمر میں وفات پاگیا۔ بعد میں اس نظریے پر تحقیق جاری رہی اور اسی حوالے سے ١٩٩٠ءمیں امریکی خلائی ادارہ ناسا نے خلائی شٹل ’’ڈسکوری‘‘ کے ذریعے ایک خلائی دور بین خلا میں بھیجی جس کا نام ایڈون پاول ہبل کے بام پر’’ ہبُل‘‘ رکھا گیا۔ یہ وہی دوربین ہے جو سب سے پہلے١٩٨٦ءمیں خلا میں بھیجی گئی تھی ، لیکن تھوڑی ہی عرصے کے بعد خراب ہوگئی تھی اور اسے بصد شکل زمین پر اتارلیا گیا تھا۔
ہبل دوربین سے٣٨٠میل دور اپنے مدار میں گردش کررہی ہے۔ اس میں مختلف وقتوں میں خرابیاں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں، لیکن ناسا کے حوصلہ مند سائنسدان اس کی مرمت کرتے رہے ہیں، چناچہ ١٩٩٥ءسے ٢٠٠٣ءتک اس دور بین نے تواتر کے ساتھ کائنات کے دور دراز گوشوں کی تصاویر حاصل کیں جن سے فلکیات کے بارے میں بڑی ہی حیرت انگیز اور پراسرار معلومات کا انکشاف ہوا اور ایڈون پاول ہبل کا نقطہ نظر درست ثابت ہوا۔ ناسا کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہبل دوربین کم از کم ٢٠١٠ءتک مطلوبہ تصاویر بھیجتی رہے گی، مگر حیرت انگیز طور پر٢٠٠٤ ءمیں ہبل خراب ہوگئی اور اس نے تاریک کائنات دور دراز گوشوں کی تصاویر بھیجنی بند کردیں۔
میں نے اخبارات میں شائع ہونے والے ہبل کی فراہم کردہ تصاویر درجنوں کی تعداد میں محفوظ کی ہیں۔ کھلی آنکھوں سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ تصاویر شعلوں کی ہیں، بھڑکتے ہوئے نیلے پیلے، سرخ شعلوں کی.... لیکن حیرت انگیزطور پر ان تصاویر کے نیچے ناسا کی طرف سے جوتعارفی جملے لکھے نظر آتے ہیں، وہ یوں ہیں: ایک ستارہ خودکشی کررہا ہے، ایک ستارہ پیدا ہورہا ہوں اور آخر میں ان کے حوالے سے اپنا نتیجہ فکر بیان کروں گا۔ یہ معلومات واقعی چونکادینے والی اور دہشت زدہ کردینے والی ہیں:
١۔ ایک خبر: کھربوں میل دور سینکڑوں ستارے ٹکرا گئے۔ خوفناک دھماکے ہوئے جن کے بعد سینکڑوں ستارے پھٹ کر بکھر گئے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار اتنی زبردست روشنی پھیلی....عظیم ترین ہبل نے ریکارڈ کرلیا۔(’’نوائے وقت‘‘،١٢جون١٩٩٧ء)
٢۔ ناسا کی رصد گاہوں کے مطابق خلا میں ہزاروں نئے ستاروں نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب تک کیے جانے والے مشاہدے کی رو سے ثابت ہوا ہے کہ کہکشاؤں کے تصادم سے ستارے جنم لیتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت خلا میں بے شمار ستاروں کی روشنیاں جھلملاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔(’’جسارت‘‘ کراچی(٢٤اکتوبر١٩٩٧ء)
٣۔ ایک خبر: سورج سے تیس کروڑ گنا بھاری بلیک ہول مل گیا ۔ بلیک ہول دراصل بہت بڑے بڑے مردہ ستاروں پر مشتمل ہے۔ وہاں کثافت کا یہ عالم ہے کہ ان کی کشش ثقل روشنی کو بھی اپنے اندر قیدکرلیتی ہے.... یہاں ایسے تنگ علاقے بھی ہیں جن میں خلائی گرد اور گیسیس فوارے کی طرح اُچھل رہی ہیں۔(’’جنگ‘‘لاہور٦نومبر١٩٩٧ء)
٤۔ ایک خبر: ماہرینِ فلکیات نے آسمان پر ایک روشن ترین ستارہ دریافت کیا ہے جو سورج سے ایک کروڑ گنا(دس ملین گنا) طاقت ور اور کئی سو گنا بڑا ہے۔ لاس اینجلس کے ایک اخبار ورلڈنیوز کے مطابق ایک سائنس دان نے خوفزدہ آواز میں بتایا کہ یہ ستارہ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا نام ’’پسٹل سٹار‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ حرارت اور روشنی کے بہت بڑے گولے کی طرح چودہ کروڑ میل قطر پر مشتمل ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سورج کا قطر چار لاکھ تیس ہزار میل ہے۔ اس ستارے سے چھ سیکنڈ میں جتنی روشنی اور توانائی خارج ہوتی ہے وہ سورج ایک سال میں خارج کرتا ہے.... بہت سے ماہرین فلکیات یہ بات کہتے ہوئے خوف ودہشت سے کانپ جاتے ہیں کہ یہ ستارہ بڑی تیزرفتاری کے ساتھ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور جوں جوں یہ قریب آتا جائے گا زمین کا درجہ حرارت بڑھتا چلا جائے گا۔(روزنامہ ’’خبریں‘‘٨جنوری١٩٩٨ء)
٥۔ ایک خبر: خلائی سائنس دانوں نے عجیب و غریب دھما کا خیز گاماریز کا ایک بڑاجمگھٹا دریافت کیا ہے جو زمین سے بارہ ارب نوری سا ل کے فاصلے پر ہے۔ ان میں سے ایک سے دو سیکنڈ میں پیدا ہونے والی روشنی پوری کائنات کی روشنی سے کہیں زیادہ ہے۔ (’’خبریں‘‘ ٩مئی١٩٩٨ء)(نوری سال؟ اگر ایک جہاز ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلے اور ایک سال تک مسلسل چلتا رہے تو یہ ایک نوری سال ہوگا)۔
٦۔ایک خبر تصویروں کے ساتھ: کائنات میں عجیب وغریب طاقت کے حامل نئے ستاروں کی دریافت ، نیوکلیئر سے بنے ہوئے نئے ستارے سورج سے آٹھ گنا بڑے ستاروں کی توڑ پھوڑ سے پیدا ہوئے۔ ایک ستارے کا حجم ١٢میل اور مادہ سورج سے زیادہ ہے۔ مادے کا ایک چمچ زمین کے اربوں ٹن کے برابر ہے ۔(’’نوائے وقت‘‘ ٩اکتوبر١٩٩٨ء)
٧۔ نیلے، پیلے،سرخ سیاہ اور سفید شعلے کی پھیلی ہوئی تصویر ۔ اس کے نیچے یہ مضحکہ خیز تعارفی سطور ہیں: ہماری کہکشاں میں ایک نیا ستارہ پیدائش کے عمل سے گزرہا ہے۔ ستارہ پیدا ہونے کی یہ تصویر چلّی میں نصب ایک بڑی دوربین سے لی گئی ۔(’’نوائے وقت‘‘ ٢دسمبر١٩٩٨ء)
٨۔ہولناک شعلے کی تصویر،سپر ہاٹ (غیر معمولی گرم) قسم کے یہ ستارے انتہائی نایاب ہیں اور ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے ۔(’’نوائے وقت‘‘ ٧اکتوبر١٩٩٨ء)
٩۔ماہرین فلکیات نے پہلی بار گاما ریز دھماکوں سے روشنی  نکلتے ہوئے دیکھی ہے۔ یہ اپنی قسم کے پراسرار طاقتور دھماکے ہیں جو کائنات کی تہوں میں باقاعدگی سے ہلچل مچاتے ہیں۔ تقریباً ایک سو سیکنڈ تک جاری رہنے والے دھماکے کا پتہ دو مواصلاتی سیاروں نے چلایا اور یہ کھربوں سورجوں سے نکلنے والی توانائی کے برابر ہے۔(’’نوائے وقت‘‘ ٢٩جنوری١٩٩٩ء)
١٠۔ سرخ، پیلے اور سیاہ رنگوں میں گھری ہوئی واضح شعلوں کی تصویر: اس کا عنوان ہے ’’ستارے کی خودکشی‘‘ تصویر کے نیچے تعارفی جملے یوں ہیں: ہبل خلائی دوربین نے ایک پڑوسی کہکشاں میں واقع ایک بڑے ستارے (سپرنووا) کی خودکشی کی یہ تصویر لی ہے۔ ستارے کے از خو دتباہ ہونے کا منظر ٢٣فروری١٩٨٧ءکو جنوبی کرۂ ارض میں سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا تھا۔ سپر نووا کی تباہی کا عمل طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے۔(’’نوائے وقت‘‘ لاہور١٠فروری١٩٩٩ء)
١١۔ مختلف رنگوں پر مشتمل ایک تصویر اور اس میں روشنیاں کا چکا چوند.... نیچے لکھا ہے اس تصویر میں دئیے گئے مقام پر بڑے بڑے سورج پھٹ رہے ہیں۔ اس مقام کو ماہرین فلکیات ’’موج٣٠١‘‘کے نام سے پکارتے ہیں۔ موج٣٠١کے اکثر سورج اپنی عمر پوری کرکے پھٹ کر سپر نووا میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ پھٹے ہوئے سورج اپنے اطراف میں تین سو میل فی سیکنڈ کے حساب سے مواد بکھیر رہی ہیں۔(روزنامہ’’پاکستان‘‘ ١٨اپریل١٩٩٩ء)
١٢۔ایک خبر: ہبل سپیسں دوربین نے تین سو متحرک کہکشاؤں کی تصویر اتارلی جو ایک دوسرے کے قریب ناچتی نظر آتی ہیں۔ منظر انتہائی خوبصورت ہے۔ اگر کبھی ان کے گھومنے کی رفتار میں کمی آگئی تو آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں مدغم ہوسکتی ہیں۔ یہ تینوں کہکشائیں مرغولوں کی صورت میں ہیں۔(’’دن‘‘٨دسمبر١٩٩٩ء)
١٣۔سیاہ اور براؤن رنگ کی عجیب خوفناک ، ڈراؤنی تصویر کے نیچے لکھا ہے : ناسا کی ہبل دوربین نے کار نیا نامی نبولاکے اندر موجود کروڑوں اربوں میل لمبے چوڑے پر اسرار و پیچیدہ جسم کی تفصیل پر مبنی تصویر حاصل کی ہے۔ یہ پر اسرار جسم پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا.... اس نبولا میں ایسے بہت سے سورج ہیں جو ہمارے سورج سے دس گناہ زیادہ گرم اور سو گنا بڑے ہیں۔(’’دن‘‘لاہور٤فروری٢٠٠٠ء)
١٤۔ ایک خبر: سائنس دانوں نے ایک کہکشاں میں ایک مقناطیسی بلبلہ دریافت کیا ہے اور اس پر وہ حیران رہ گئے ہیں کہ یہ بلبلہ کیسے بنا؟’’یہ کہکشاؤں کی نئی خصوصیت ہے جس کا ہمیں پہلے علم نہ تھا۔‘‘(’’دن‘‘ ١٩اپریل٢٠٠٠ء)
١٥۔ایک خبر تصویر: ایک اور بلیک ہول دریافت ۔ سینکڑوں نوری سال بلند بلبلے اٹھ رہے ہیں۔ بلبلوں کی لمبائی، چوڑائی آٹھ آٹھ سو نوری سال کے برابر ہے۔ گرد کے دھبوں کے نیچے سے اُٹھ رہے ہیں۔ سائنس دان بلبلے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اپنی نوعیت کا واحد بلیک ہول جس میں گیس کی مقدار بے پناہ ہے۔ تصویر میں ایک شعلہ بلند ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔(روزنامہ’’دن‘‘ ٢٥جون٢٠٠٠ء)
١٦۔ ہماری کہکشاں میں اگر چہ ایک ارب سے زیادہ ستارے ہیں لیکن مجموعی طور پر نسبتاًخاموش اور کم عمل کہکشاں ہے۔اس کے مقابلے میں ’’سین ٹارس‘‘  کہکشاں کے مرکز میں بڑے پیمانے پر دھماکے ہورہے ہیں۔ ابھی پتہ نہیں چلا کہ اس قدر غیر معمولی توانائی کا ماخذ کیا ہے۔(روزنامہ’’دن‘‘ ٢٥جون ٢٠٠٠ء)
١٧۔گہرے سرخ رنگ کی تصویر جس میں پیلے اور سفید دھبے ہیں ۔نیچے لکھا ہے ’’ناسا کی جاری کردہ تصویر میں باہم متصادم دو کہکشاؤں کے مرکزی حصے کو دکھایا گیا ہے۔ درجنوں روشن نقطے وہ نیوٹران سٹار(بلیک ہول) ہیں جو نزدیکی سورجوں سے روشنی کھینچ رہے ہیں۔ روشن قطعہ عظیم بلبلے ہیں جن کی چوڑائی ہزاروں نوری سال پر مشتمل ہے۔ یہ بلبلے ہزاروں سپر نوواز کی اجتماعی طاقت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘(’’پاکستان‘‘١٨اگست٢٠٠٠ء)
١٨۔زمین سے چھ سو نوری سال کے فاصلے پر ایک ایسا غیر معمولی کا بلیک ہول دریافت ہوا ہے جہاں وقت تھم جاتا ہے، خلا بے معنی اور روشنی قید ہوجاتی ہے۔ (روزنامہ’’پاکستان‘‘١٥ستمبر٢٠٠٠ء)
١٩۔ تین تصویر مع وضاحتی خبر: خلاؤں میں روپوش ١یم١٦ایگل نبولا ہبل کی خلائی دوربین نے ١٩٩٦ءمیں دریافت کیا۔ جب ماہر فلکیات پیڑ نے ہبل کی تصاویر کا تجزیہ کیا۔ پیڑ نے دیکھا کہ تصویروں میں چھوٹے چھوٹے مدار ستاروں کا گروہ موجود ہے اور یہاں سے گیسیس اٹھ رہی ہیں جو جمی ہوئی ہائیڈروجن کے ستونوں سے بیرونی ریڈی ایشن کی وجہ سے بنتی ہے۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ ایگل نبولا کے ستونوں سے نکلنے والی گیسیس رنگین ہیں اور ان کا درجہ حرارت ٢٥٠سے (کے ٣٢٠)ہے۔ ہاتھی کی سونڈ کی مانند ان ستونوں کے درمیان موجود مادوں سے تارے تشکیل پارہے ہیں۔ ایگل نبولا زمین سے سات ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے اور اس کے اندر کل مادہ میں سے ٢٠فیصدغاروں کی شکل اختیار کررہا ہے ۔(’’نوائے وقت‘‘١٦اکتوبر٢٠٠٠ء)
٢٠۔ ایک خبر : ملکی وے گلیکسی اربوں سال سے چھوٹی کہکشاؤں کو نگل رہی ہے۔ پوری گلیکسی اپنے مرکز کے گرد خاص ردھم کے ساتھ حرکت پذید ہے۔(’’نوائے وقت‘‘ ١٠جنوری٢٠٠١ء)
٢١۔ایک تصویر: سرخ ، سیاہ رنگ، عظیم الجثہ نومولود ستارے نظرآرہے ہیں جو نیبولا (این ٨٣ بی) میں شدید تابکاری کے باعث دائرہ نما بلبلے خارج کررہے ہیں۔ تصویر میں بہت زیادہ روشن حصے کے بالکل نیچے نیبولہ کے مرکز میں واقع بے ضرر سا نظر آنے والا ستارہ حقیقت میں ہمارے سورج سے تیس گنا بڑا اور اس سے دو لاکھ بار زیادہ روشن ہے ۔(’’جنگ‘‘لاہور٢٩مارچ٢٠٠١ء)
٢٢۔ روزنامہ جنگ لاہور کے سنڈے میگزین مورخہ ٦مارچ٢٠٠١میں ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ عنوان ہے’’ایک ستارے کی موت‘‘۔ نظر بظاہر یہ کسی انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔ ساتھ تین تصویریں بھی ہیں جو دہکتے ہوئے مواد کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس مضمون کے بعض فقرے معنی خیز اور غور طلب ہیں۔ملاحظہ ہوں:
’’ہماری اس پوری کہکشاں میں ہر پل ستارے بنتے ہیں، اپنی عمر پوری کرتے ہیں اور پھر فنا ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’بڑے ستارے ، ستاروں کے اس گروہ کو کہتے ہیں جن کی کمیت دس سو رجوں سے زیادہ ہوتی ہے اور ایسے ستارے غیر معمولی انجام سے دوچار ہوتے ہیں جس کا نظارہ دیدنی قراردیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ان کا حجم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ ہئیت میں کسی سرخ عفریت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جہاں ان کی بیرونی پرت ٹھنڈی ہونے کے ساتھ ساتھ پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ بالآخر ان کا مرکزی حصہ جسے مرکزہ کہتے ہیں، ایک عظیم دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑتا ہے۔یہ دھماکا اس قدر شدید ہوتا ہے کہ بالا ئے فضا اس کی دھمک دور دور تک محسوس ہوتی ہے۔ اس دھماکے کو سپر نووا کہا جاتا ہے (سپر نووا ایک انفجاری جس کے پھٹنے سے ہمارے سورج کی روشنی سے ایک سو ملین (یعنی ایک کروڑ گنا) سے بھی زیادہ روشنی پیدا ہوتی ہے)۔
٢٣۔ پیچ در پیچ گھنے شعلوں کی تصویر: نیچے لکھا ہے ’’زمین سے ایک لاکھ ستر ہزار نوری برس کے فاصلے پر ملکی وے کہکشاں میں واقع نبولا۔ اس میں گیسوں اور گردو غبار پر مبنی وسیع علاقہ نظر آرہا ہے ۔ یہاں ہزاروں ستارے جنم لے رہے ہیں۔‘‘(’’جنگ‘‘٢٨جولائی ٢٠٠١ء)
٢٤۔ سرخ، زرد، نیلے ، نارنجی اور سفید رنگوں میں ایک کیکڑا نما شعلہ۔ نیچے لکھا ہے’’ریڈسپائڈرنبولا‘‘تین ہزار نوری فاصلے پر ۔ اس نبولا میں سرخ رنگ کے گندھک کے آئنز یعنی برق پارے، نارنجی رنگ میں نائٹروجن آئنز ، سبز رنگ میں ہائیڈروجن آئنز ، ہلکے نیلے رنگ میں معمول کی آکسیجن ، جبکہ گہرے نیلے رنگ میں آئنا ئزڈ آکسیجن دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تصویر ہبل ٹیلی سکوپ نے حاصل کی ہے۔(’’نوائے وقت‘‘٣٠جولائی٢٠٠١ء)
٢٥۔ایک تصویر اور خبر:راٹن ایگ نبولا کی دریافت :( ایک بادل نما انبار جس میں سے لگے سڑے انڈے کی بدبو آرہی ہے) کاش انسان خلا میں سونگھ سکتا تو گندھک کے جلنے کی ناقابلِ برداشت بواسے راٹن ایگ نبولا کی طرف رہنمائی کرتی۔ یہ نبولا١٤٤نوری سال پر محیط ہے۔ سائنس دانوں نے ’’ہبل‘‘ کی فراہم کردہ اس تصویر کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’نبولا‘‘ کے مرکزہ سے نکلنے والی گیس مختلف تہوں اور رنگوں پر مشتمل ہے۔ گاڑھا سنہری رنگ دراصل وہ مواد ہے جس کاستارے کے مرکز سے حال ہی میں اخراج ہوا ہے اور اس کی رفتار کروڑوں میل فی گھنٹہ ہے۔ یہ گیس اندر پھیلتی ہے اور نیلے رنگ میں دکھائی دینے والے سست رفتار مواد کو گرماتی ہے۔(’’نوائے وقت‘‘ ٣١اگست ٢٠٠١ء)
٢٦۔ایک خبر: ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ کائنات کے دور دراز گوشے میں غیر معمولی جسامت کا ایک بلیک ہول ہے جو ستاروں کو ان کی روشنیوں سمیت نگل جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے بعض ستاروں کو پچاس لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی ناقابلِ تصویر رفتار سے بلیک ہول کی طرف بڑھتے اور معدوم ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کا رقبہ ہمارے سورج سے ٢٦لاکھ گنا بڑا ہے۔(’’پاکستان‘‘ ٦ستمبر ٢٠٠١ء)
٢٧۔ ایک تصویر میں دو روشنیاں۔ ایک نیم دائرے کی صورت میں، دوسری لیکر کی شکل میں۔ نیچے لکھا ہے ’’ناسا ہبل ٹیلی سکوپ نے٨ اگست کو یہ تصویر کھینچی ہے اس میں پہلی بار ایک بڑی گلیکسی کو چھوٹی گلیکسی نگلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘(’’نوائے وقت ‘‘١٠اگست٢٠٠٣ء)
٢٨۔ ایک خبر: بلیک ہول کی آواز سن لی گئی۔ ماہرین فلکیات پہلی بار خلا میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول سے برآمد ہونے والی آواز کو سننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ناسا کے ماہرین نے اسے ایک عظیم ترین کامیابی قرار دیتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ اس سے ایک بات بہت بڑے سائنسی راز کے افشا ہونے میں مدد ملے گی۔ بلیک ہول سے برآمد ہونے والی مذکورہ آواز کا زیروبم اتنا گہرا ہے کہ انسانی قوتِ سماعت اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔(روزنامہ’’امت‘‘ ١١ستمبر٢٠٠٣ء)
............
 قارئین کرام! آپ نے یہ خبریں مطالعہ فرمائیں۔ یہ کائنات کے دور دور گوشوں کے حوالے سے بڑی نادرو نایاب معلومات ہیں اور ہمیں ان سائنس دانوں اور اہل کمال کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے فلکیات کے بعید ترین گوشوں کی جھلکیاں ہم تک پہنچادیں۔ یہ خبریں پڑھتے ہوئے اور تصویرں دیکھتے ہوئے میں بار بار غور کرتا رہا کہ سائنس دانوں نے ایک خاص حوالے سے معلومات تو یقیناً بے مثال نوعیت کی حاصل کر لیں، مگر افسوس وہ اپنی کوتاہی کی وجہ سے صحیح نتائج تک نہ پہنچ سکے۔ یہ تصاویر دیکھ کر اور خبریں پڑھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ کائنات کے جس گوشے اور علاقے کی اس میں عکاسی کی گئی ہے وہ جہنم کا علاقہ ہے۔ یہ تصویریں جن کے نیچے ’’پیدا ہوتے ہوئے ستارے‘‘اور ’’خودکشی کرتا ہوا ستارہ‘‘  کا تعارفی کلمات لکھے ہوئے ہیں، واضح طور پر بھرکتے ہوئے ، پیچ وتاب کھاتے ہوئے شعلوں کی تصویریں ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا ستارے بکری یا گائے کے بچے ہیں کہ انہیں پیدا ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے یا وہ کوئی انسان یا حیوان ہیں کہ ان کے عالم برزخ  کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ شعلوں کی تصویریں ہیں اور یہ لازماً جہنم کے شعلے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور دوربین نے زمین سے کروڑوں نوری میل کے فاصلے سے کائنات کے دور دراز گوشوں کی جو تصاویر حاصل کی ہیں، ان میں مختلف زاویوں سے جہنم کے کچھ مناظر محفوظ ہوگئے ہیں۔ بھڑکتے ، دہکتے، چنگاڑتے ہوئے جہنم کے مختلف گوشوں کو ان سائنس دانوں نے کہکشاں (گلیکسی) کا نام دیا ہے جہاں ان غیر معمولی جسامت کے شعلوں کا دھواں یافضا میں تحلیل ہوتی ہوئی باقیات نظر آتی ہیں۔ لیکن انہوں نے تعبیر یہ کی ہے کہ ’’ستارہ مررہا ہے‘‘یا’’خودکشی کررہا ہے‘‘ تحلیل ہوتے ہوئے شعلوں اور دھوؤں سے انہوں نے اندازہ کرلیا کہ ’’سپر ہاٹ‘‘ ستاروں کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔
جہنم کے اس علاقے سے دھوئیں اور گیسوں کے مرغولے اٹھتے ہیں ، غیر معمولی چنگھاڑ کی آواز آتی ہیں، شعلے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں، تو سائنس دان فرض کرلیتے ہیں کہ دو کہکشائیں ایک دوسری کو نگل رہی ہیں یا بڑے بڑے سورج پھٹ رہے ہیں۔ ’’حمیم‘‘اور ’’غسلیں‘‘ کی جھیلوں میں دیو ہیکل بلبلے پیدا ہوتے ہیں، تو سائنس دان پریشان ہوجاتے ہیں ، ان کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس کی کیا تعبیر کریں۔
جہنم کے گڈھوں سے بے پناہ خرج کی آوازیں آتی ہیں.... یہاں ہائیڈروجن گیس کے مہیب ستون ہیں (آیات کا ترجمہ’’وہ سمجھتا ہے کہ اس کامال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں وہ شخص تو چکنا چور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کردینے والی جگہ؟ اﷲ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی، جودلوں تک پہنچے گی، وہ ان پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی۔(اس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں گھڑی ہوں گے۔‘‘
امریکہ اور یورپ کے سائنس دان کا المیہ یہ ہے کہ وہ انفس وآفاق کی غیرمعمولی معلومات رکھنے کے باوجود اور ہرجانب ایک شاندار ، بے مثال اور محیر العقول نظام کی کار فرمائی دیکھنے کے باوجود وہ اس سب کچھ کو محض اتفاق قراردیتے ہیں اور اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ ادراک کرنے سے معذور ہیں کہ یہ کائنات کسی حادثے یا اتفاق کے نتیجے میں معرض وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کے حی وقیوم خالق نے اسے بڑی ہی حکمت کے ساتھ، ایک خاص منصوبے اور پلان کے مطابق تخلیق کیا ہے۔ وہ انسانوں کو بے مثال صلاحیتوں کے ساتھ، بے حدوحساب وسائل فراہم کرکے اس دنیا میں ایک محدود مدت کے لیے محض امتحان کی خاطر بھیجتا ہے.... اور پھر ایک وقت آتا ہے جب لازماً ان پر موت وارد ہوجاتی ہے اورکوئی شخص خواہ کتنے ہی لامحدود اور غیرمعمولی اختیارات کا مالک ہو یا اپنے غیر معمولی کردار اور حیثیت کی وجہ سے وہ انسانیت کے لیے خواہ مخواہ کتنا ہی اہم اور ناگزیر کیوں نہ ہو، بہر حال اس کا مادی وجود ختم ہو کے رہتا ہے (لیکن اس کی روح زندہ محفوظ رکھی جاتی ہے).... اور پھر جیسا کہ سارے نبیوں نے اس کی تعلیم دی، توریت، زبور اور انجیل نے اس کی تصدیق کی اورآخری الہامی کتاب، قرآن پاک میں اس کا تفصیل اور تکرار کے ساتھ ذکر موجود ہے کہ ایک روز لازماً قیامت برپاہوگی۔ یہ دنیا ختم کردی جائے گی، اس کی بعد حشر برپا ہوگا ، تاریخ ِ انسانی کے ہر فرد بشر کو اپنے مادی جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا، اس کے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا۔ پھر اگر اس نے خوش قسمتی سے اﷲ کی رضا حاصل کرلی تو اسے غیر معمولی نعمتوں اور راحتوں سے آراستہ باغوں میں داخل کیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ وہ میزانِ عدل پر پورا نہ اُتر ا تو اسے سزا اور تعذیب کے حوالے کردیا جائے گا۔
عقوبت کے اس مقام کا نام جہنم ہے۔ قرآن پاک اور مستند احادیث کے مطابق جب یہ دنیا تخلیق کی گئی تھی تو اس کے ساتھ ہی جنت اور جہنم بھی معرض وجود میں آگئے تھے۔ وہ ہمیشہ سے موجود ہیں لیکن انسان کی نظروں سے بہت دور کائنات کے دور دراز گوشوں میں مستور رکھے گئے ہیں۔
قرآن پاک جہنم کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیلات کا جابجا  تذکرہ فرمایا ہے۔ جہنم کی دہشت ناکی کا یہ عالم ہے کہ حضوراکرم صلی علیہ وسلم ان سورتوں کو پڑھتے ہوئے جن میں عذابِ جہنم کا ذکر ہے، سخت خوفزدہ ہوکر رویا کرتے تھے۔ فرمایا کہ مجھے سورہ تکویر، انفطار اور انشقاق نے بوڑھا کردیا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں جہنم کی دہشت کا جو نقشہ نظر آتا ہے وہ مختصراً یو ں ہے:
سورة الفرقان٢٥آیات ١١۔١٤میں ہے :’’اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے۔ وہ جب دور سے ان کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے اور جب یہ دست و پابستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے ( اس وقت ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔‘‘
سورة الملک ٦٧آیات٧۔٨:’’جب کافر جہنم میں پھینکے جائیں گے تو وہ جہنم کے دھاڑنے کی خوفناک آوازیں سنیں گے۔ جہنم انہیں کھارہی ہوگی۔ ایسا معلوم ہوگا کہ وہ غصے کے مارے پھٹ جائے گی۔‘‘
ابوداؤداور ترمذی کی ایک طویل حدیث ہے جس میں یہ غور طلب الفاظ ہیں کہ جہنم کے بعض حصے بعض پرسوار ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر غالب اور مسلط ہیں ۔(یعنی شدت غضب میں)
حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں: حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کفار کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا تو جہنم چیخنے لگے گی اور ایک ایسی جھرجھری لے گی کہ تمام اہلِ محشر خوف زدہ ہوجائیں گے۔ حضرت عبید عمیر فرماتے ہیں کہ جب جہنم غصے سے تھر تھرائے گی، شور وغل، چیخ پکار اور جوش وخروش شروع کرے گی تو تمام مقرب فرشتے اور بلند مرتبہ انبیاءکانپنے لگیں گے حتیٰ کہ خلیل اﷲ حضرت ابراہیم بھی اپنے گھٹنوں کے بل گرجائیں گے اور پکاریں گے کہ یااﷲ میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کی سلامتی چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا۔(تفسیر ابن کثیر،سورة الفرقان)
نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جہنم اس قدر گہرا ہے کہ اگر ایک پتھر اس میں پھینکا جائے تو وہ ستر سال تک گرتا ہی چلا جائے گا۔
قرآن پاک کے مطابق پتھر اور انسان جہنم کا ایندھن ہوں گے۔(سورة البقرہ:٢٤)
ابنِ کثیر نے اس کی تفسیر میں متعدد روایات نقل کی ہیں کہ یہ پتھر گندھک کے ہوں گے، سیاہ گندھک کے بے حد بدبودار۔ ان پتھروں کی بدبومردار سے بھی زیادہ ہوگی۔
جہنم کی حرارت کا یہ عالم ہے کہ بنی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دنیا اور آگ جہنم کے ستر حصے میں سے ایک ہے اور اگر سوئی کے ناکے کے برابر اس کی حرارت دنیا تک پہنچ جائے تو آنِ واحد میں سب کچھ بھسم ہوجائے (ستر کاعدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عموماً کثرت کے معنوں میں استعمال کیا ہے)
جہنم کے سات مختلف طبقات ہیں یعنی ’’الجحیم‘‘ ہے، بھڑکتی ہوئی آگ کا گڑھا۔’’الحطمہ‘‘ ہے، توڑ پھوڑ دینے والی، چکنا چور کردینے والی۔ ’’ھاویہ‘‘ ہے یعنی گہری کھائی۔’’ سقر‘‘ ہے یعنی شدید ترین انداز میں جھلسا دینے والی’’لظی‘‘ ہے یعنی بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ۔’’سعیر‘‘ ہے یعنی دہکتی ہوئی آگ اور ’’زمھریر‘‘ جس میں شدید ترین سردی ہے۔ جہنم کی ایک وادی کانام’’ویل‘‘ ہے۔ اس کی ایک جھلک سورة المرسلات (٧٧)کی ان آیات میں نظر آتی ہے:(کافروں کو حکم ہوگا) چلو اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا۔ یہ آگ محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی ، یوں محسوس ہوگا جیسے زرد  رنگ کے اونٹ ہیں۔ ہلاکت اور بربادی ہوگی اور روز جھٹلانے والے کے لیے۔(آیات ٣٠تا٣٤)
دلچسپ اور غو ر طلب بات یہ ہے کہ سائنس دانوں نے جو مختلف ’’کہکشائیں‘‘ دریافت کی ہیں، ان کی مختلف اقسام ہیں اور انہیں مختلف نام دئیے گئے ہیں۔
جہنم کے بارے میں قرآن و احادیث کی فراہم کردہ ان معلومات کو دیکھیئے اور پھر امریکی خلائی ادارے ناسا کی جاری کی ہوئی تصویر اور خبروں کا مطالعہ فرمائیے، آپ کو دونوں میں حیرت انگیز مشابہت نظر آئے گی اور یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ یہ لازماً جہنم کے اشارات ہیں جو دنیا تک آپہنچے ہیں۔ چناچہ ’’ ہبل‘‘ کی سارے تصویروں میں مختلف گیسوں یعنی گندھک ، ہائیڈروجن، آکسیجن ا ور نائٹروجن کا ذکر کثرت سے ہے۔ وہاں حرارت کا وہ عالم ہے کہ اس کے تصور سے پسینے چھوٹے جاتے ہیں۔ وہاں کثافت کی یہ کیفیت ہے کہ چمچہ بھر مواد کا وزن اربوں ٹن ہے۔ وہاں شعلوں کی چیخم دھاڑاس قدر بے پناہ ہے کہ انسانی کان اس کی سماعت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہاں شعلے ایک دوسرے کو نگل رہے ہیں(جس کی تعبیریوں کی گئی ہے کہ ایک کہکشاں دوسری کو نگل رہی ہے)
جہنم میں کھولتا ہوا پانی، پیپ اور خون ہوگا اور ہبل کی تصویروں میں بھی سائنس دانوں نے غیر معمولی جسامت کے بلبلے اُٹھتے ہوئے دیکھے ہیں۔ وہاں بے حد وحساب جسامت کے شعلے بھڑکتے اور دہکتے ہیں جن کی چنگاریاں غیرمعمولی ہیں(’’محل جیسی‘‘،’’زردرنگ کے اونٹوں جیسی‘‘)اور ناسا کے سائنس دانوں نے انہیں نئے ستاروں کی پیدائش سے تعبیر کیا ہے۔
جہنم کے بعض طبقے بے حد تاریک اور گہرے ہیں اور یہاں حرارت کا تناسب بہت ہی غیرمعمولی اور لرزا دینے والا ہے اور یہی غالباً بلیک ہولز ہیں.... جو سائنس دانوں کے نزدیک ’’مردہ ستاروں‘‘ کے ملبہ ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ جو شخص کسی کی ہاتھ برابر جگہ پر ناجائز قبضہ کرے گا، جہنم میں اس کے گلے میں سات زمینوں کے برابر طوق ڈالا جائے گا(بخاری، کتاب الفتن، باب١٣،روایت سعید بن زید) اس حدیث کو دیکھئے اور پھر ناسا کی سائنس دانوں کی ایک تحقیق پر غور فرمائیے کہ بلیک ہول میں کثافت کا یہ عالم ہے کہ وہاں چمچہ بھر مواد کا وزن کروڑوں ٹن (بلین ٹن) ہوگا۔(خبرنمبر٤)
یوں لگتا ہے کہ بلیک ہول دراصل جہنم کے گڑھے ہیں جہاں ان ظالموں ، جفاکاروں کو بند کیا جائے گا جنہوں نے خلق خدا پر ظلم کئے ہوں گے، انہیں تباہ برباد کیا ہوگا اور ان کے حقوق غضب کئے ہوں گے۔ وہاں ان کے گلے میں تھوڑا سا مواد ڈالا جائے گا لیکن اس کا وزن کروڑوں اربوں ٹن ہوگا اور وہ یوں محسوس کریں گے جیسے سات زمینیں ان کے گردن کے ساتھ باندھ دی گئی ہیں۔
چناچہ مجھے اس امر میں کوئی شبہ نظر نہیں آتا کہ ہبل کی تصویرں جہنم کے شعلے ہیں جبکہ بلیک ہول جہنم کے گڑھے ہیں اس کے سوا ان کی کوئی علمی ، عقلی یا سائنسی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
٠........٠........٠
اب آئیے دیکھئے ہیں کہ زمین پر گرمی تیزی سے کیوں بڑ ھ رہی ہے اور گلیشیئر کیوں پگھلنے لگے ہیں؟
میں نے اوپر ناسا کے حوالے سے جو خبریں درج کی ہیں، ان میں سے نمبر٤کودوبارہ دیکھئے۔ امید ہے اس سوال کا جواب آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔ فلکیات کے ماہرین سائنس دانوں کے مطابق سورج سے ایک کروڑ گنا روشن اور جسامت میں سینکڑوں گنا بڑا ایک ’’ستارہ‘‘ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جن سائنس دانوں نے ہبل کی تصویروں کا تجزیہ کرکے یہ رائے قائم کی ہے ، وہ یہ بتاتے ہوئے خوف اور دہشت سے کانپ جاتے ہیں۔ امریکی سرکاری حکام بھی اس بہت بڑے خطرے کے بارے میں اپنا منہ بند کئے ہوئے ہیں تاکہ لوگ دہشت زدہ نہ ہو جائیں۔
لیکن قیامت کے حوالے سے اتمام حجت کا ایک مضبوط قرینہ سامنے آگیا ہے اور دہکتا ، بھڑکتا غیر معمولی علاقہ جسے ناسا کے سائنس دان’’ ستارہ‘‘  کہہ رہے ہیں وہ دراصل جہنم ہے جسے یوں لگتا ہے کہ اپنے اصل مقام سے دنیا کی طرف سفر کا حکم دے دیا گیا ہے اور وہ نہایت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔(سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق یہ علاقہ دنیا سے چھ کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے اور پانچ لاکھ سال کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔)
قرآن مجید میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ جہنم گھات لگائے بیٹھا ہے ۔ سورة النباء٧٨ میں ہے :’’ بے شک جہنم مطابق قیامت کے روز جہنم دنیا کے بالکل قریب آجا ئے گا۔‘‘سورة الفجر ٨٩میں ہے :’’ جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی، اس روز انسان کو سمجھ آجائے گی لیکن اس وقت سمجھنے کا کیا فائدہ ہوگا؟‘‘(آیت ٢٣) .... چناچہ جہنم اس روز اہلِ زمین کے عین سامنے ہوگی اور اس کی بھڑک ، تندی وتیزی ، دہشت و وحشت اور دھاڑ کا یہ عالم ہوگا کہ جلیل القدر انبیاءتک شدید خوفزدہ ہو جائیں گے۔
متعدد احادیث سے پتا چلاتا ہے کہ قیامت کا زمانہ بہت قریب آگیا ہے اور جن معدود دے چند لوگوں کو اﷲ نے قیافہ شناسی اور پیش بینی کی صلاحیت عطا فرمائی ہے،ان کا بھی کہنا ہے کہ دنیا کی عمر بس اب ڈیڑھ سو سال رہ گئی ہے۔ پھر یہ بساط لپیٹ دی جائے گی اور قیامت لازماً برپا ہوگی۔
چناچہ امکان یہ ہے کہ جہنم کو اپنے مرکز سے روانگی کا حکم مل چکا ہے اور ناسا کے سائنس دانوں کا تجزیہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ بے حد تیز روی کے ساتھ زمین کے قریب آرہا ہے.... اور اسی سبب سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور گلیشیئر تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں سائنس دانوں نے جو شواہد حاصل کئے ہیں ، ان کی چند خبریں ملاحظہ ہوں:
١۔ وائس آف امریکہ کے مطابق کوہِ ہمالیہ میں موجود گلیشئیر خطرناک حد تک تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چالیس سال میں کوہِ ہمالیہ کے بیشتر گلیشئیر ناپید ہوجائیں گے۔ جس کے نتیجے میں پہلے سیلاب آئیں گے اور پھر علاقے میں دریا خشک ہوجائیں گے۔(روزنامہ ’’دن‘‘لاہور،١١جون١٩٩٩ء)
٢۔ واشنگٹن کے تحقیقی ادارے کے مطابق دنیا بھر میں گرمی بڑھنے سے ہمالیہ کی برف تیزی سے پگھلنے لگی ہے۔ گلیشئیر پگھلنے سے پہلے تو دریائے گنگا اور دریائے سندھ میں سیلاب آئے گا اور پھر اگلے ٣٥سال میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک کم ہوجائے گی۔
(روزنامہ ’’پاکستان‘‘٢٥جولائی٢٠٠٠ء)
٣۔ گزشہ تیس سالوں کے دوران دنیا بھر کے درجۂ حرارت میں کم از کم چھ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ انکشاف ایک مطالعاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے جو نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے تیار کی گئی ۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے باعث کرۂ عرض کا ماحول متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ (’’پاکستان‘‘ ١٧اگست٢٠٠٠ء)
٤۔ امریکہ کی نیشنل فاؤنڈیشن کے ایک جائزے کے مطابق بیسویں صدی کے آخری تیس سالوں میں قطبیں پر درجہ حرارت گزشتہ چار سو سالوں میں سب سے زیادہ رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا میں زبردست ماحولیاتی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔(’’جنگ ‘‘لاہور ١٧اگست٢٠٠٠ء)
٥۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق قطب شمالی پر موجود برف اندازے سے زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ادارے کی تحقیقات کے مطابق برف ہر سال نو فیصد کی شرح سے پگھل رہی ہے اور اگر یہی شرح قائم رہی تو صدی کے آخر تک یہاں کی ساری برف معدوم ہوجائے گی اور دیگر مسائل کے علاوہ عالمی درجہ حرارت غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گا۔(روزنامہ’’امت‘‘ کراچی،٢٨نومبر٢٠٠٢ء)
٦۔چلّی کے سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ قطب جنوبی میں دنیا کا سب سے بڑا گلیشئیر تیزی سے پگھلتا ہوا سمندر میں سرک رہا ہے اور اگر اس کے پگھلنے اورسرکنے کی یہی رفتار رہی تو سمندروں کی موجودہ سطح بلند ہوجائے گی۔(’’جنگ‘‘ لاہور،١٧جنوری٢٠٠٣ء)
٧۔سوئٹرز لینڈ کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یورپ میں شدید گرمی کی لہر کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہے گا.... واضح رہے کہ گزشتہ سال شدید گرمی سے یورپ میں سینکڑوں افراد مرگئے تھے اور براعظم کے مختلف ملکوں کے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی۔ ٢٠٠٣ءکے موسم گرما میں یورپ میں ہفتہ مسلسل دن کے وقت ٣٠ڈگری سینٹی گریڈ حرارت نوٹ کی گی جب کہ کئی ملکوں میں ریکارڈ توڑ ٤٠سینٹی گریڈ سے زیادہ گرمی نوٹ کی گئی جس کے سبب کئی جنگلات میں آگ لگ گئی، پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ بہت سی انسانی ہلاکتیں بھی ہوئیں ۔(’’امت‘‘ کراچی،١٤جنوری ٢٠٠٤ء)
دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کے نتیجے میں پہاڑوں کی برف پگھلے گی اور گلیشیئر معدوم ہوں گے اور اس کے نتیجے میں پہلے سیلاب آئیں گے اور پھر پانی کی قلت پیدا ہوگی تو ان آفتوں اور بحرانوں کی ایک حکمت تویہ ہوسکتی ہے کہ دنیا والوں نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے قوانین کے خلاف بغاوت پر جو کمرہ باندھ رکھی ہے، اس کی انہیں سزادی جائے گی اور انہیں طرح طرح کی پریشانیوں اور دکھوں میں مبتلا کیا جائے گا۔ لیکن غور کرنے سے سمندر کے گلیشیئر پگھلنے کا بڑا سبب نظر آتا ہے کہ قیامت سے پہلے پہلے دنیا سے پہاڑوں اور سمندروں کی برف کا مکمل خاتمہ ضروری ہے.... قرآن میں ہے کہ قیامت آئے گی تو سمندروں میں آگ لگ جائیگی (٦:٨١) (جب سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے) (٣:٨٢) (جب سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے)۔
اور ایسا تب ہوگا کہ پانی کے دوبنیادی اجزا ءیعنی اکسیجن اور ہائیڈورجن کو الگ الگ کردیا جائے گا اورچونکہ ایک گیس جلنے والی جبکہ دوسری جلانے والی ہے، اس لیے سمندر فوراً ہی بھڑک اٹھیں گے اور اپنی بھک سے اڑ جائے گا۔ چناچہ اس عمل کی تکمیل کے لیےضروری ہے کہ قیامت سے پہلے دنیا سے برف کا وجود معدوم ہوجائے اور سمندروں میں صرف پانی رہ جائے ۔
قارئین گرامی! میں متذکرہ بالا معلومات کی روشنی میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ تو جہنم کے ارشادات تھے جو دنیا تک آپہنچے ہیں اور ظاہر ہے جہنم میں چونکہ آگ ہے، حرارت ہے، شور ہے، اس لیے اس کے اشارات بہت دور تک پہنچ سکتے تھے لیکن دنیا تک جنت کے اشارات کی دسترس کیسے ہوگی کہ وہاں تو باغات ہیں، نہریں ہیں، مرغزار ہیں.... تب اﷲ نے کرم فرمایا اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور کی ٤جون١٩٩٤ءکی ایک خبر نے دل ودماغ اور روح کو اطمینان کامل سے سرشار ونہال کردیا کہ’’زمین سے دو سو ملین یعنی بیس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر سائنس دان پانی کی کثرت کو دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں۔یہ انکشاف امریکہ اور جرمنی کے سائنس دانوں نے ایک ریڈیائی دور بین استعمال کرتے ہوئے کہا‘‘.... اور ظاہر ہے کہ یہ علامت جنت کی ہے کہ اس سے قبل سائنس دانوں کوپوری کائنات میں زمین کے سوا، پانی کا کہیں سراغ نہیں ملا اور جنت کی بڑی خصوصیات یہ ہے کہ وہاں نہروں اور آبشاروں کی کثرت ہے۔
قارئین گرامی! میں نے اپنی محدود سمجھ بوجھ اور دستیاب معلومات کی بنا پر عہدِ حاضر کے چند اہم سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اﷲ کرے کہ آپ ان دلائل سے مطمئن ہوں اور اﷲ تبارک وتعالیٰ کی قدرتوں وعواقب کو بھگتنے کی تیاری بھی کرلیں۔ دیکھئے’’ کتابِ زندہ‘‘ ہمیں اس حوالے سے کیسے معجزانہ انداز میں خبر دار کررہی ہے:
’’کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اﷲ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھک جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی.... پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں۔ خوب جان لو کہ اﷲ زمین کو اس کی موت کی بعد زندگی بخشتا ہے۔ ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھادی ہیں، شاید کہ تم عقل سے کام لو۔‘‘(سورة الحدید٥٧: آیات ٦،١٧)

(ماہنامہ ظلال القرآن اسلام آباد)


[1] یونیورسٹی کالج لندن کے سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے کہ زمین کا مرکز ٥٥٠٠ڈگری گریڈ پر دہک رہا ہے جو سورج کے درجہ حرارت کے برابر ہے۔ یہ تحقیق سپر کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی ۔(روزنامہ "جنگ"لاہور۔ یکم اکتوبر ١٩٩٩ئ)

7 comments:

  1. ماشاء اللہ
    اچھی چیزیں شیئر کرتے رہا کیجئے

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی آراء کا میں مشکور ہوں۔
      ثاقب شاہ

      Delete
    2. انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔

      Delete
  2. حطمہ کی اہمیت پر نقاط
    تحریر شوکت محمود اعوان
    1962 ءمیں علامہ محمد یوسف جبریل کو قرآن حکیم میں حطمہ( ایٹمی سائنس اور قران حکیم )کےبارےمیں انکشاف ہوا ۔ حطمہ کےبارےمیں آقا نبی کریم اور صحابہ کرام کےارشادات موجود ہیں۔ بعد میں مفسرین کرام نےاس پر خصوصی تحقیق کی اور روحانی نسبت سےحطمہ کےبارےمیں بہت معلومات فراہم ہوئیں جو کہ تفاسیر کی کتب میں موجود ہیں۔یہ حقیقت ہےکہ علامہ صاحب نے ان تمام تفاسیر کا بہت گہرا مطالعہ کیا۔یہ مطالعہ بعد میں ان کےبہت کام آیا۔ یہ تمام تفاسیر سائنسی حقائق پر مبنی ہیںاور زیادہ تر حقائق موت کےبعد کی جہنم کےبارےمیں ہیں یعنی وہ حطمہ جو موت کےبعد جہنم کی شکل میں سامنےآئےگی اور گنہگاروں کو اس جہنم میں پھینکا جائےگا۔ لیکن علامہ صاحب نےاس فانی دنیا کےحطمہ پر تحقیق کا دائرہ بہت وسیع کیا اور صدیوں سےحطمہ کا تذکرہ شامل موضوعات رہا اس کےبارےمیں زیادہ سےزیادہ معلومات فراہم کیں۔اس کی سائنسی افادیت اور اہمیت پر علامہ صاحب نےوسیع تر حوالوں سےلکھا۔ کیوں کہ یہ دور سائنس کو ماننےوالا دور ہےاور سائنس اور جنگ کےحوالےسےحطمہ کی تباہی و بربادی ( ایٹمی سائنس) کےحوالےسےثابت ہو چکی ہی۔ اس کےلئےعلامہ صاحب نےفزکس ، کیمسٹری، ریڈیوبائیولوجی ، میتھ اور جنرل سائنس کےساتھ ساتھ دوسرےجنرل مضامین کا بھرپور مطالعہ کیا۔ اور ان سےاستفادہ کرکےعوام الناس کو انکشافات سےآگاہ کیا۔
    حطمہ کی حقیقت اس وقت واشگاف ہوئی جس وقت علامہ صاحب کا ستمبر 1963 ءمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں محترمہ شمل صاحبہ سےمناظرہ ہوا۔علامہ صاحب نےاپنی تحریروں میں اس مناظرہ کا ہمیشہ سخت لہجےمیں ذکر کیا۔ ان کےخیال میں غیر مسلم مستشرقین کی یہ سازش تھی کہ قران حکیم کو اللہ کےکلام کی بجائےحضرت محمد کا کلام ثابت کر کےاسےانسانی کلام ثابت کیا جائی۔ تاکہ وہ بنیاد ٹوٹ جائےجس پر قران حکیم کی عظمت قائم ہےکہ قران حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہےاور آقا نبی کریم پر نازل ہوا۔ علامہ صاحب نےمستشرقین سےکبھی بھی مصالحت نہیں کی۔ کیوں کہ مستشرقین نےبھی قران حکیم، آقا نبی کریم اور اسلام پر سخت لہجےمیں تنقید اور تحقیق کی ہی۔ علامہ صاحب نےچونکہ یورپی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور انہوں نےمستشرقین کی کتابیں گہرائی کےساتھ پڑھی تھیں۔ لہذا کبھی بھی انہوں نےمستشرقین کےساتھ محبت والا پہلو مدنظرنہیں رکھا۔ اسی وجہ سےاکثر لوگ معترض ہیں کہ اینی مری شمل اسلام کا مطالعہ بچپن سےکر رہی تھیں اور اس عمر میں جب 1963 ءمیں مباحثہ ہوا تو اینی مری شمل اسلام اور قران حکیم کو مسلمانوں سےبھی زیادہ بہتر طور پر سمجھ چکی تھیں۔ یہ حقیقت ہےلیکن علامہ صاھب جانتےہیں کہ اسلام کےخلاف سازشیں کسی بھی رنگ میں ہو سکتی ہیں اور تحقیق کےپہلو میں بھی اسلام اور قران پر بہت رقیق حملےہوئےہیں۔ لہذا اینی مری شمل کےبارےمیں ان کی رائےکچھ اچھی نہ تھی بےشک وہ اسلام کو اچھی طرح سےپرکھ چکی تھیں۔وہ جانتےتھےکہ اینی مری شمل ایک عیسائی مستشرق ہی۔ اور وہ اسلام کی تحقیق تو کر رہی ہےلیکن ایمان لانےوالےلوگ زیادہ تحقیق نہیں کرتے۔ اللہ جس کو چاہےقبول اسلام کےقریب لےآئی۔ اور جو تحقیق کرتا رہے۔ وہ تحقیق کےدائرےسےباہرہی نہ نکلی۔ یہی وجہ ہےکہ انہوں نےفرانسس بیکن اور سر جیمز جینز کےساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔ یہ دونوں شخصیات نےدنیا کےموجودہ نظام پر گہرےتاثرات چھوڑےہیں۔ بیکن نےمادہ پرستی کو جنم دیا، ترقی دی اور دین سےدوری کا سبق دیا۔ جب کہ سر جیمز جینز نےکائنات کی تخلیق سےخدائی عنصر کو ہی فارغ کر دیا۔ یہ دونوں نظریات اسلام کےمخالف تھے۔ اور ان کےنتائج بہت برےنکلےہیں اور انسانیت روحانیت کو چھوڑ کر مادہ پرستی کی سمت چلی گئی۔ علامہ صاھب کےخیال میں بی بی کی سکیم نہایت ہی خطرناک تھی۔ جب اس نےقران حکیم میںغلطیاں نکالیں تو لازماََ اس کا نتیجہ یہ نکلےگا کہ مسلمان اس مسئلےپر آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں گی۔ یہ حقیقت ہےکہ مسلمان بہت جلد یورپی مستشرقین کی باتوں میں آ جاتےہیں اور انہیں اپنےدین کی بنیاد کمزور دکھائی دینےلگتی ہےاور یہی وجہ ہےکہ آج مسلمان فرقہ واریت میں غیر مسلموں سےکہیں آگےہیں اور آپس میں ان کی فرقہ واریت کی جنگ اپنےعروج پر ہی۔

    ReplyDelete
  3. حطمہ کی اہمیت پر نقاط
    تحریر شوکت محمود اعوان
    1962 ءمیں علامہ محمد یوسف جبریل ۔ علامہ صاحب مسلمانوں کےمستقبل سےخائف تھی۔ انہیں یقین تھا کہ مسلمان کبھی بھی مادہ پرست نظام سےنہیں نکل سکیں گےاور وہ کبھی بھی اسلامی نظام معیشت اور نظام سیاست اسلامی نافذ نہیں کر سکیں گی۔ کیوں کہ مسلمانوں کی طنابیں غیر مسلم حکمرانوں کےہاتھوں میں مقید ہیں۔ چونکہ قران حکیم میں اللہ تعالیٰ کےارشاد کےمطابق اس کی حفاظت خود اللہ تعالی کےہاتھ میں ہےاور انا نخن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون کےمطابق اللہ تعالیٰ نےہر دور میں قران حکیم کی خود حفاظت کرنا ہی۔ لہذا جوں ہی یہ فتنہ اظہر یونیورسٹی کےبعد لاہور کی سمت آیا۔علامہ صاحب کو خبردار کر دیا گیا ۔ وہ کہتےتھےکہ چاہےمس اینی مری شمل کی نیت ٹھیک ہی کیوں نہ ہو کوئی بھی مسلمان ان لوگوں کی تحقیق پر یقین بڑی مشکل اورسوچ بچار کےبعد کرتا ہی۔ (بعض لوگ فوری قبول کر لیتےہیں) کیوں کہ ظاہر میں کچھ اور ہوتا ہےاور باطن میں کچھ اور۔اگر مثلاََ لاہور میں کھلےمقام پر بی بی یہی تقریر کرتی جو اس نےپنجاب یونیورسٹی کےہال میں کی تو دو لاکھ میںسےکتنےآدمی سمجھ سکتےکہ و ہ غلطیاں جن کی نشان دہی بی بی کر رہی ہےجھوٹ ہیں۔ تقریر کےبعد لوگ آپس میں دو گروہ بن کر الجھ جاتی۔ ان گروہوں میں ایک گروہ یہ کہتا کہ قران حکیم میں غلطیاں ہیں دوسرا گروہ کہتا کہ غلطیاں نہیں ہیں اور اس طرح مسلمانوں میں جنگ و جدل کا سماں پیدا ہو جاتا۔ اسلام پر اس قسم کےرقیق حملے پہلےبھی ہوتےرہےہیں اور آئندہ زیادہ سختی کےساتھ ہوتےرہیں گی۔ اور یقیناََ بی بی کا حملہ نہایت خطرناک تھا۔
    بنیادی طور پر حطمہ کی سورة آئن سٹن، نیل بوہر، اینری کوفرمی، برٹرینڈ رسل ، ایڈورڈٹیلر ، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر اور اوپن ہیمر جیسےلیول کےسائنس دان کماحقہ سمجھنےکی اہلیت رکھتےہیں۔ ان میں سےاکثر مر چکےہیں۔اور اب ان حقیقتوں کو سمجھنےوالا کوئی نہیں۔ اگر سمجھےگا تو بھی اس طرح نہیں جس طرح کہ مشہور سائنس دان سمجھ سکتےہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نےایٹمی جہنم سےنجات کےکئی ذرائع بیان کئےہیں لیکن انسانیت کی ایٹمی جہنم سےنجات کا ذریعہ فقط یہی سورة الھمزہ ہی۔ ورنہ باقی تمام معاملات کمزور پڑ رہےہیں۔ عوام کی اکثریت ایٹمی سائنس سےناواقف ہےاور یہ علم سیکرٹ علم ہے۔ سوائےچند سائنس دانوں کےدوسرا کوئی بھی عالم، فاضل، محقق ،مدبر اس علم سےواقف نہیں۔ کیوں کہ اس علم کو محدود رکھا گیا ہےاور ایک مخصوص ٹولہ مخصوص مفادات کو محفوظ کرتےہوئےاس علم کےبارےمیں بات کرتاہےاور بہت ساری باتیں وہ لوگوں کو نہیں بتاتا۔ بلکہ اپنےملک کےاہل علم طبقہ کو اس علم سےمحروم رکھتا ہی۔ تابکاری، جین میوٹیشن جیسےعلوم جو انسانیت کے لئےنہایت ہی خطرناک ہیں اور ان کےنتائج انسانی وجود کو تباہ و برباد کرنےکےمترادف ہیں۔ لہذا سائنس دان کبھی بھی ان چیزوں کو عوام میں اظہار نہیں کرتی۔ لیکن قران حکیم نےچودہ سو برس قبل اس علم کےبہت سارےنقطےاور حقائق سےانسانیت کو آگاہ کر دیاتھا تاکہ وقت پر قران حکیم سے استفادہ کرکےانسانیت کو ایٹمی جہنم سےبچا لیا جائی۔ بنیادی طور پر ایٹم بم ہتھیار نہیں۔ بلکہ عذاب الہیٰ ہیں اور انسانیت کا مکمل قتال ہیں۔ ہتھیار ایک محدود جنگ میں استعمال ہوتےہیں اور ان کےنقصانات نسبتاََ ایٹم بموں کےہتھیاروں سےکم ہوتےہیں جب کہ ایٹم بم انسانیت کی مکمل تباہی کا ذریعہ بنتےہیں۔
    شمل کےبارےمیں مختلف نظریات ہیں۔ اس کی علمی قابلیت کا اعتراف دنیا بھر کرتی ہےاور پاکستان کےاہلِ علم تو اس کو
    (شوکت محمود اعوان جنرل سیکرٹری ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان قائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی www.oqasa.org 03009847582

    ReplyDelete
  4. ALLAMA MUHAMMAD YOUSUF GABRIEL

    Name : Muhammad Yousuf
    Father’s Name Mohammad Khan
    Date of Birth : 17 Feb. 1917
    Village Khabakki, valley Soon Sakaser Khoshab, Pakistan

    3) Author of (a) Mind of the Quran (English) (b) Socioeconomic system of Islam (Urdu) (c) Quran predicts Atomic bomb.(d) Unscientific Philosophy of the Scientist vs. the Philosophy of the Quran.
    a) Ex-Research Scholar, and Muballigh of Ulema Academy Auqaf Government of the Punjab.
    b) As a Muballigh preached and lectured on religions topics in Schools, Colleges, Bar Associations and various other institutions.
    5. Ex-interpreter Egyptian Embassy, Cultural Centre, Intertranslated in Arabic, English and Urdu for the Markaz--e-Thaquafi.
    6. Command on English, Arabic, Persian Language, to a standard requisite for an author.
    7) Poetical works in urdu and Persian.
    8) Correspondent of late Bertrand Russell, famous English Philosopher.
    9) Vast contributions on religions and diverse other topics to all the notable dailies and journal both Urdu and English, of Lahore, Wah Karigar POF Wah Cantt.
    10) Deep Study of Greek, Islamic and Modern Philosophy.
    11) A thorough knowledge of various important branches of Modern Science.
    12) One lecture at least in English was delivered in the P.O.F. Ordnance Officers Club in November 1972.
    13) Scores of commendatory letters of authorities in various fields can be presented on Interview. A tribute was paid by the well known intellectual mind of POF namely F.A. Ibnul Hassan on the occasion of his lecture in POF Ordnance Club.
    14. It has to be particularly noted. That Allama Muhammad Yousuf Gabriel knew no controversial school of thought. He knew only one school and that is of Islam, as was taught by the Holy Prophet (Peace be Upon Him).
    15) He had chalked up a programme and started a movement for the reform of the Youth in schools and colleges in Lahore and other places of the Country. A work which he had done in Lahore, with much encouraging success and which is the need of hour, and of momentous import.
    16) Most of his life had was spent in Religious study, Quran, Hadhis, and Fiqah. Islamic History, also a study of comparative religions more than six years. He had studied in Arab countries. Half a century’s toil in acquirement of knowledge in various fields.

    ReplyDelete
  5. ALLAMA MUHAMMAD YOUSUF GABRIEL

    Name : Muhammad Yousuf
    Father’s Name Mohammad Khan
    Date of Birth : 17 Feb. 1917
    Village Khabakki, valley Soon Sakaser Khoshab, Pakistan

    3) Author of (a) Mind of the Quran (English) (b) Socioeconomic system of Islam (Urdu) (c) Quran predicts Atomic bomb.(d) Unscientific Philosophy of the Scientist vs. the Philosophy of the Quran.
    a) Ex-Research Scholar, and Muballigh of Ulema Academy Auqaf Government of the Punjab.
    b) As a Muballigh preached and lectured on religions topics in Schools, Colleges, Bar Associations and various other institutions.
    5. Ex-interpreter Egyptian Embassy, Cultural Centre, Intertranslated in Arabic, English and Urdu for the Markaz--e-Thaquafi.
    6. Command on English, Arabic, Persian Language, to a standard requisite for an author.
    7) Poetical works in urdu and Persian.
    8) Correspondent of late Bertrand Russell, famous English Philosopher.
    9) Vast contributions on religions and diverse other topics to all the notable dailies and journal both Urdu and English, of Lahore, Wah Karigar POF Wah Cantt.
    10) Deep Study of Greek, Islamic and Modern Philosophy.
    11) A thorough knowledge of various important branches of Modern Science.
    12) One lecture at least in English was delivered in the P.O.F. Ordnance Officers Club in November 1972.
    13) Scores of commendatory letters of authorities in various fields can be presented on Interview. A tribute was paid by the well known intellectual mind of POF namely F.A. Ibnul Hassan on the occasion of his lecture in POF Ordnance Club.
    14. It has to be particularly noted. That Allama Muhammad Yousuf Gabriel knew no controversial school of thought. He knew only one school and that is of Islam, as was taught by the Holy Prophet (Peace be Upon Him).
    15) He had chalked up a programme and started a movement for the reform of the Youth in schools and colleges in Lahore and other places of the Country. A work which he had done in Lahore, with much encouraging success and which is the need of hour, and of momentous import.
    16) Most of his life had was spent in Religious study, Quran, Hadhis, and Fiqah. Islamic History, also a study of comparative religions more than six years. He had studied in Arab countries. Half a century’s toil in acquirement of knowledge in various fields.

    ReplyDelete